کراچی : جامعہ کراچی میں لیوا نکیشمنٹ، 35 فیصد تنخواہوں میں اضافے، بچوں کی فیس، ایرئیرز اور دس سال سے التوا کا شکار ترقیوں کے لیے ملازمین کی قلم چھوڑ ہڑتال چوتھے روز میں داخل ہو گئی ۔ اساتذہ کا ایوننگ کلاسز کا بائیکاٹ گزشتہ 12 روز سے جاری ہے ۔
تفصیلات کے مطابق جامعہ کراچی میں اساتذہ و ملازمین کے احتجاج سے جامعہ میں شدید انتطامی بحران پیدا ہو گیا ہے ۔ ملازمین کے احتجاجی جلسہ میں ایک ہزار سے زائد ملازمین کی جانب سے بھر پور شرکت کی گئی ہے ، صوبائی اسمبلی اراکین ، سپلا کے صدر، کالج اساتذہ ، انجمن اساتذہ کے رہنمائوں و دیگر نے ملازمین کے احتجاجی جلسہ سے خطاب بھی کیا ۔ رکن صوبائی اسمبلی شیخ عبداللہ نے کہا کہ جامعہ میں بہت احتجاج دیکھے مگر جامعہ کراچی میں اس سے بڑا احتجاج نہیں دیکھا ۔
نعروں کی گونج میں شیخ عبداللہ نے وائس چانسلر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپکے اختیار میں ہے کہ آپ احتجاج کو مزید طول دے کر جامعہ کے پر امن ماحول کو سبوتاژ کریں یا پھر ملازمین کے مسائل حل کرنے کے لئے عملی اقدامات کو یقینی بنائیں ۔
ایک اور رکن صوبائی اسمبلی انجینئر عثمان نے کہا کہ یونیورسٹی تباہی کی جانب گامزن ہے اور ملازمین اس تپتی دھوپ میں اپنے ساتھ ساتھ اساتذہ اور کالج اساتذہ کے ساتھ جس پیمانے پر احتجاج کر رہے ہیں ۔ اس پر نہ صرف صوبائی اسمبلی میں بات ہو گی بلکہ وزیر تعلیم کی توجہ جامعہ میں جاری بد انتظامی کی جانب مبذول اور اس حوالے سے اقدامات کرنے کی سفارش کریں گے ۔

سندھ پروفیسر اینڈ لیکچر زایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر منور عباس اور کالج سے جامعہ کراچی کی سینیٹ و اکیڈمک کونسل کے منتخب اراکین جب وفد کی صورت جلسہ گاہ پہنچے تو ان کا پرزور تالیوں میں استقبال کیا گیا ۔ پروفیسر منور عباس نے کہا کہ ملازمین کسی بھی کالج اور یونیورسٹی کا کلیدی جزو ہیں ، ان کے بغیر تعلیمی سلسلہ نامکمل ہے ۔ وائس چانسلر فوری طور پر لیو انکیشمنٹ، ایرئیرز کا اجراء کریں، ڈی پی سی کی تاریخ دیں ورنہ سپلا کالج اساتذہ کا جلوس پورے کراچی سے جامعہ کراچی کا رخ کرے گا ۔
صدر انجمن اساتذہ اور نومنتخب رکن سنڈیکیٹ پروفیسر ڈاکٹر شاہ علی القدر نے شیخ الجامعہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر پیر تک مسائل حل نہیں ہوئے تو پیر کو ہونے والے جنرل باڈی کے اجلاس میں انجمن اساتذہ مکمل ہڑتال کا فیصلہ کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار سالوں میں یونیورسٹی کی بدانتظامی اس حال کو پہنچ گئی ہے کہ عمارتیں کھنڈر اور بنیادی ملازمت کے حقوق چھین لیے گئے ہیں۔ ایسے یونیورسٹی نہیں چل سکتی، وائس چانسلر کا تقرر کرنے والوں اور بالخصوص وزیر اعلیٰ سندھ جو وائس چانسلرز تو تعینات کر دیتے ہیں مگر اس کے بعد پوچھتے نہیں کے کیا ہو رہا ہے انہیں نوٹس لینا ہو گا۔
اس موقع پر نیوٹرل ایمپلائز کے صدر شکیل احمد گبول اورمور گروپ کے صدر انور اقبال نے بھی خطاب کیا۔ اراکین اسمبلی میں جناب معید انور بھی شامل تھے ۔ آخرمیں صدر ایمپلائز ویلفیئر ایسوسی ایشن عرفان خان نے تاریخی جلسہ عام پر تمام ملازمین کو خراج تحسین پیش کیا اور اعلان کیا کہ کل بروز جمعہ بھی قلم چھوڑ ہڑتال جاری رہے گی اور یہ احتجاج /ہڑتال اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے۔

