جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی میں خودکشی سے بچائو کے عالمی دن کی مناسبت سے ایک سیمینار بعنوان ’’کہانی سنو‘‘ منعقد کیا گیا جس کا تھیم ’’عمل کے ذریعے امید جگائو‘‘ تھا۔ سیمینار کا اہتمام ڈی این پی اور میریٹوریس پروفیسر اقبال آفریدی نے کیا اور اس کی میزبانی ڈاکٹر عبدالقادر نے کی جبکہ ڈاکٹر روزینا نے قرآن پاک کی آیات تلاوت کی۔اس سلسلے میں وائس چانسلر پروفیسر امجد سراج میمن نے کہاکہ خودکشی عوامی صحت کاایک سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے اور ہمیں اسے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،خودکشی سے بچنے کا ایک طریقہ ذہنی صحت کو فروغ دینا ہے، ہمیں لوگوں کو خودکشی کی انتباہی علامات اور مدد کیسے حاصل کرنی ہے اس کے بارے میں تعلیم دینے کی ضرورت ہے، ہمیں ایک ایسا معاشرہ تیار کرنے کی ضرورت ہےجہاں لوگ اپنی ذہنی صحت کے مسائل کے بارے میں بات کرنے سے نہ ہچکچائیں۔
اس موقع پر پروفیسر اقبال آفریدی نے کہاکہ خودکشی ایک عالمی مسئلہ ہے ، دنیا بھر میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک شخص خودکشی کر لیتا ہے، خودکشی کی سب سے زیادہ شرح ملحد کمیونٹیز میں پائی جاتی ہے، اس کے بعد بدھ مت، عیسائی اور ہندو کمیونٹیز ہیں اور سب سے کم خودکشی کی شرح مسلم کمیونٹیز میں پائی جاتی ہے۔پروفیسر آفریدی نے خودکشی کی روک تھام کے مختلف طریقوں پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایاکہ خودکشی کے طریقوں تک محدود رسائی ، ذمہ دار میڈیا رپورٹنگ ، والدین اور بچوں کے مابین بہترین تعلقات ، مذہبی وابستگی اور ذہنی صحت کی ترویج خودکشی جیسے خیالات پر قابو پانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔انہوں نے لوگوں کے درمیان تعلقات کی اہمیت پر زور دیا اور لوگوں سے کہا کہ وہ اپنے پیاروں پر نظر رکھیں اور اگر وہ کسی مسائل سے گزر رہے ہیں تو انہیں سنیں۔ انہوں نے طلباء سے بھی کہا کہ تعلیم ایک نعمت ہے، اسے زحمت نہ سمجھیں۔سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کے چیئرمین سینیٹر کریم خواجہ نے 2016 سے 2020 تک کی کیس اسٹڈیز شیئر کیں ، جن سے پتہ چلا کہ سجاول ڈسٹرکٹ میں خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے جبکہ کشمور ڈسٹرکٹ میں سب سے کم ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر روز 50 سے 70 خودکشی کے کیسز جناح اسپتال اور سول اسپتال میں داخل ہوتے ہیں،خودکشی کی بنیادی وجہ ڈپریشن ہے اور خود نقصان کا تناسب بھی تشویشناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتھارٹی نفسیاتی نگہداشت میں ڈاکٹروں کو تربیت دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
ڈاکٹر چونی لال نے کہا کہ کوئی بھی ذہنی صحت کے مسائل سے محفوظ نہیں ، ہر کسی کو اپنی ذہنی صحت کا خیال رکھنا چاہیےاور اگرکوئی بھی کسی بھی قسم کے مسائل سے گزررہا ہے تو اسے اپنا علاج کروانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ خودکشی کرنے والے لوگ خودغرض ہوتے ہیں کیوں کہ ان کے عمل سےان کے اہلخانہ شدید تکلیف سے گزرتے ہیں۔ ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکبر درس نے کہا کہ خودکشی عوامی صحت کا مسئلہ بن رہی ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرے ۔ڈاکٹر سید تفضّل حیدر زیدی نے کہا کہ والدین اور طلباء کو ایک دوسرے سے جڑے رہنا چاہیے۔
انہوں نے والدین سے اپیل کی کہ وہ اپنی بچوں کی بات سنیں اور انہیں جذباتی مدد فراہم کریں۔ڈاکٹر عرفان علی نے کہا کہ لوگوں کو اپنا آپ دیکھنا اور ایماندار ہونا چاہیے اور اپنے مذہب پر یقین رکھنا چاہیے، یہ یقین لوگوں کو برے خیالات سے بچنے اور خودکشی سے روکنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے ۔پاکستان نیوی کے کمانڈر شہاب نے کہا کہ میڈیا کو خودکشی کی خبروں کو سنسنی خیز نہیں بنانا چاہیے۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے پیاروں میں خودکشی کی انتباہی علامات سے آگاہ ہوں اور اگر کہیں علامات پائی جائیں تو اس کے تدارک کیلئے اقدامات کیے جائیں۔سیمینار کا اختتام ایک پینل ڈسکشن کیساتھ ہواجس میں مقررین نے خودکشی کی روک تھام کیلئے اقدامات پر زور دیا۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ اگر وہ کسی بھی مسائل کا شکار ہیں تو مدد کے لیے پکاریں اور یہ یاد رکھیں کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔سیمینار میں رجسٹرار ڈاکٹر عظم خان، فیکلٹی ارکان، انتظامی افسران، طلباء اورجامعہ کے عملے نے شرکت کی۔

