Wednesday, December 10, 2025
صفحہ اولبلاگدینی اداروں کی عصری تعلیم سے قربت

دینی اداروں کی عصری تعلیم سے قربت

سخن سعدی

مدارس کو عصر حاضر کے تقاضوں پر آراستہ کرنے کی کوششیں ایک عرصہ سے کی جا رہی ہیں۔ عصر حاضر کا تقاضا سب سے بڑا یہی رکھا جاتا ہے کہ ہر فاضل دینی علوم کے ساتھ عصری علوم سے بھی آگاہی رکھے۔ اس شورش نے بالآخر مدارس کو بڑی حد تک متاثر کر دیا اور اب مدارس دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کے تقاضے بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔ اس صورت حال میں چند باتیں پیش خدمت ہیں۔

 

1۔ ہم نے اس نعرہ سے متاثر ہو کر اس کو ضرورت سمجھ لیا اور اپنے نصاب کا حصہ بنا لیا اور ہم ہی ان اداروں کے لوگوں کی مانتے چلے آئے اور رفتہ رفتہ نصاب میں عصری تعلیم شامل کرتے کرتے ایک معیار تک تو لازم کر دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے ان کو اپنے عصری اداروں میں دینی تعلیم پر کتنا آمادہ کیا؟ ہم دینی تعلیم کی اہمیت و ضرورت کو کس قدر اجاگر کرنے میں کامیاب ہوئے کہ وہ بھی اپنے نظام میں اس تعلیم کو جگہ دینے کو ضروری سمجھتے اور نصاب میں داخل کرتے؟ دینی تعلیم اس قدر غیر اہم اور غیر مؤثر ہے کہ ہم انہیں اس کی اہمیت نہ سمجھا سکے اور نہ ہی قلوب کو اس طرف مائل کر سکے، یقینی طور پر ایسا نہیں ہے بلکہ بطور داعی یہ ہم سب کی کمزوری ہے۔

 

2۔ عصری تعلیم ضرورت سمجھ کر جزوی حیثیت سے پڑھایا جاتا تو اچھی بات ہے، لیکن اب تو یہ ترجیح کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ اب اکثر مدارس کے داخلوں کے اشتہارات میں خصوصیات یوں لکھی جاتی ہیں کہ عصری تعلیم کا خصوصی انتظام، کمپیوٹر لیب، انگلش پر خصوصی توجہ دی جائے گی وغیرہ۔ یہ خصوصیات پڑھ کر کبھی ایسا لگتا ہے کہ شاید اب ترجیحی بنیادوں پر اسی تعلیم پہ توجہ دی جاتی ہے یا پھر لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے ایسے عنوانات قائم کئے جاتے ہیں۔ جبکہ ان مدارس کی ترجیحات کبھی ان بنیادوں پر ہوتی تھیں، صرف و نحو کا بہترین انتظام، اجراء پر خصوصی توجہ، خوش خطی کا اہتمام، کلامی مباحث کی سہل اسلوب میں تفہیم، تفسیر و حدیث کے علوم پر خصوصی توجہ وغیرہ اب آپ کو ایسے عنوانات شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملیں گے۔

 

3۔ اس طرز عمل سے طلبہ میں بھی عصری تعلیم سے ایک قسم کی مرعوبیت پیدا ہوتی ہے اور وہ بجائے دینی علوم میں رسوخ پیدا کرنے کے انہی علوم پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور زندگیاں اس پر کھپا دیتے ہیں۔ کوئی طالب تفسیر و حدیث، فقہ و کلام میں اپنی زندگی لگانے پر آمادہ نہیں ہوتا کیونکہ اسے کوئی مستقبل دکھائی نہیں دیتا اور نہ کوئی فائدہ نظر آتا ہے۔ برعکس دوسری تعلیم کے کہ اس سے نوکری کا حصول اور پرکشش تنخواہوں کے مواقع دکھائی دے رہے ہوتے ہیں۔

 

4۔ مدارس کا خاصہ تصوف تزکیہ ہوتا تھا، آج شاذ و نادر ہی مدارس میں اس کا اہتمام ہوتا ہے۔ اصلاح و عملی ترتیبات مدارس کے منشور سے عنقا ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ طلبہ کی عملی چیزوں پر توجہ دینا، ان کی تربیت کرنا اساتذہ اپنے فرائض منصبی کا حصہ ہی نہیں سمجھتے۔ جس کے نتیجے میں علماء بڑی تعداد میں فارغ ہونے کے بعد اصلاح نہ ہونے کی وجہ سے خود کو معاشرے کے لئے نافع فرد نہیں بنا پاتے۔

 

ان سب باتوں کا مقصد عصری اداروں میں کام کی نفی یا اس کی اہمیت کا انکار نہیں ہے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ مدارس کو اپنے اصلی مقاصد کی طرف لوٹنا چاہئے اور ان مقاصد کی تکمیل کے ساتھ جزوی طور پر کچھ اس سے آگاہی دے سکتے ہیں۔ بصورت دیگر زیادہ بہتر یہی ہے کہ مدارس اپنی اصل پر قائم رہیں اور اسلامک سکول سسٹم کے ذریعے ان نظام و نصاب میں محنت کی جائے اور ایک اچھے ماحول صحیح العقیدہ، تربیت یافتہ اساتذہ کرام سے انہیں عصری تعلیم کے حصول کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ وہ اس تعلیم کے ساتھ ساتھ درست فکر و نظریہ کے حامل بن سکیں۔

News Desk
News Deskhttps://educationnews.tv/
ایجوکیشن نیوز تعلیمی خبروں ، تعلیمی اداروں کی اپ ڈیٹس اور تحقیقاتی رپورٹس کی پہلی ویب سائٹ ہے ۔
متعلقہ خبریں

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا


مقبول ترین