وزیر اعظم آفس نے قومی رحمۃ للعالمین وخاتم النبین اتھارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر الیاس کوی منظوری دے دی ہے۔جب کہ ڈاکٹر الیاس نے پہلی سرکاری نوکری نہ چھوڑنے اور دونوں عہدے پاس رکھنے کے مطالبے کی وجہ سےوزارت تعلیم نے ان کا بطور چیئرمین تقرری کا نوٹیفیکشن روک دیا ہے۔ کیونکہ وہ دو سرکاری اداروں سے تنخواہ نہیں لے سکتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم آفس کی جانب سے قومی رحمۃ للعالمین وخاتم النبین اتھارٹی کےنئے چیئرمین کے تقرر کے لیے ڈاکٹر الیاس کی منظوری دے دی ہے۔ یہ خبر ہم نے دو ماہ قبل جاری کردی تھی اور خبر میں بتا دیا تھا کہ ڈاکٹر الیاس سیاسی اثر رسوخ کی بنیاد پر چیئر مین بننے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور ہماری خبر درست ثابت ہوئی ۔
ڈاکٹر الیاس اتھارٹی کے تیسرے چیئرمین مقرر ہونگے۔
گزشتہ حکومت میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے سب سے پہلے ڈاکٹر اکرم اعجاز کو چیئرمین مقرر کیا تھا۔ ڈاکٹر اکرم اعجاز نےکچھ ماہ بعد ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس کے بعد رفاہ یونیورسٹی کے وائس چانسل کو ڈاکٹر انیس احمد کو دوسرے چیئر مین کے لیے منتخب کیا گیا تھااور اب بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے پروفیسر اور دعوہ اکیڈمی کے ڈائیریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد الیاس کو تیسرے چیئرمین ہونگے۔ واضح رہے گزشتہ حکومت نے بھی ڈاکٹر الیاس قومی رحمۃ للعالمین اتھارٹی میں ممبر سیرت رہ چکے ہیں۔ تاہم وزارت تعلیم نے قانون کے مطابق پہلی سرکاری نوکری سے دست بردار نہ ہونے کی وجہ سے نوٹی فیکشن روک دیا ہے۔
قومی رحمۃ للعالمین و خاتم النبین اتھارٹی کے نئے چیئرمین کو ایم پی ون میں انتخاب کے لیے 6 مئی 2023 کو وفاقی وزارت تعلیم وپیشہ وارانہ تربیت کے وزیر رانا تنویر کی زیر سرپرستی میں منعقد ہونے والی انٹرویو کمیٹی نے 17 امیدواروں کے انٹرویو مکمل کئےتھے۔
انٹرویوں کے بعد تین نام کی سمری میں خورشید ندیم ، ڈاکٹر محمد الیاس اور ڈاکٹر عامر طاسین شامل تھے۔ بھجوائی گئی تھی۔ پہلے امید وار خورشیدندیم گزشتہ عمران خان کی حکومت میں پاکستان ٹیلی ویژن سینٹر میں عارضی بنیاد پر جنرل منیجر برائے مذہبی امور تعینات ہیں۔ دوسرے امیدوار ڈاکٹر محمد الیاس بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں مستقل پروفیسر اور شعبہ دعوہ اکیڈمی کے ڈائیریکٹر جنرل ہیں جب کہ تیسرے امیدوار ڈاکٹر محمد عا مر طاسین مجلس علمی فاؤندیشن پاکستان کے ایگزیکٹیو ڈائیریکٹر اور پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے سابق چیئر مین رہ رہ چکے ہیں۔
وزارت تعلیم نے اتھارٹی چیئر پرسن کے انتخاب کے لیے تمام امیدواروں کو ارسال کردہ خط میں پہلے سے واضح کردیا تھا کہ سرکاری ملازمت والے کو اپنے ادارے کی این او سی جمع کرانا ہوگی اور ضابطہ کے مطابق اتھارٹی چیئرمین کے انتخاب کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ پہلے سے موجود سرکاری ملازمت سے دست برداری کے بعد ہی چیئرمین کا نوٹیفیکشن جاری کیا جائے گا۔
وزارت تعلیم نے چیئرپرسن کا تقرر کرنے کے لیے مستقل بنیادوں پر ایم پی ون اسکیل۔میں تقرر رکھا ہے تاکہ ادارے میں مستقل ببنیاد پر کام کیا جاسکے۔ اس سے قبل اتھارٹی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر انیس احمد اعزازی طور پر مقرر کیے گئے تھے جس کے باعث وہ جز وقتی خدمات انجام دیتے رہے۔وزارت تعلیم کے قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ چیئرمین کے منصب کے لیے مشتہر پوسٹ کے بعد تین نام کی سمری وزیر اعظم آفس ارسال کی گئی تھی ۔
مبینہ طور پر سمری میں دوسرے پر موجود امیدوار بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد الیاس کا تقرر حکومت میں شامل مذہبی سیاسی جماعت کے اثر رسوخ کی وجہ سے مورخہ 23 جون 2023 کو منظور ی حاصل ہوئی ۔ سرکاری قوانین کے مطابق ڈاکٹر محمد الیاس دو عہدے ایک ساتھ نہیں رکھ سکتے ہیں انہیں پہلی سرکاری نوکری سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ ذرائع نے مزید بتایا ہے کہ عمومی طریقہ کار کے مطابق وزیر اعظم آفس ارسال کی جانے والی سمری میں پہلے نمبر پر جس کا نام ہوتا ہے اسی کا ہی انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے ۔ لیکن دوسری جانب وزیر اعظم پاکستان کااختیار بھی ہے کہ وہ تین میں سے کسی کو بھی منتخب کرسکتا ہے۔
وزارت تعلیم کے ریکارڈ کے مطابق سمری کے مطابق پہلے امیدوار خورشید ندیم بھی اس وقت پاکستان ٹیلی ویژن میں اعلیٰ سرکاری عہدے پر پہلے سے فائز ہیں۔ دوسرے امیدوار ڈاکٹر الیاس بھی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں مستقل پروفیسر ہیں جب کہ تیسرے ڈاکٹر عامر طاسین کسی سرکاری یا نجی ادارے سے وابستہ نہیں ہیں۔
وزارت تعلیم کے ایک اہم اور سینئر زرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ڈاکٹر محمد الیاس نے وزارت کے سینئر افسرسے درخواست کی ہے وہ دونوں اپنے عہدے پاس رکھنا چاہتے ہیں ۔ لیکن وزارت نے قانونی ضوابط کے مطابق ڈاکٹر االیاس کو آگاہ کردیا ہے کہ اتھارٹی چیئرمین کا منصب تین سال کی مستقل ملازمت ہےاور کسی صورت بھی دو سرکاری اداروں سے تنخواہ نہیں لی جاسکتی ہے۔ انہیں ہر صورت میں کسی ایک ملازمت کو اختیار کرنا ہوگا۔بصورت دیگر کوئی بھی شخص دو سرکاری ملازمت یا پھر اتھارٹی چیئرمین کے مستقل منصب کو اعزازی میں بدلنے کو بھی عدالت میں چیلنج کرسکتا ہے۔

