کراچی : صدرِ پاکستان نے وفاقی اردو یونیورسٹی کی سینٹ کا اجلاس 24 جولائی کو بلا لیا ۔ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کے بحیثیت قائم مقام وائس چانسلر مستقبل کا فیصلہ متوقع ہے ۔ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کی جانب سے جلدی میں من پسند افراد کو اہم عہدوں و تبادلوں سے نوازنے کا سلسلہ جاری ہے ۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی اردو یونیورسٹی کے موجودہ قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمدضیاء الدین کو سینٹ کے فیصلہ کی روشنی میں اپنا دورانیہ مکمل کرنے کے بعد وفاقی وزارت تعلیم نے 2 اپریل 2023ء سے اس عہدہ سے سبکدوش کرنے کا اعلامیہ جاری کیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے ڈاکٹر محمد صارم کی مدد سے ایمرجنسی کمیٹی کی مدد سے اپنا دورانیہ مستقل وائس چانسلر کی تقرری تک کروانے کی کوشش کی۔
آغاز میں تو وفاقی وزارتِ تعلیم نے ماضی کی دو ایمرجنسی کمیٹی کی مثالوں کی طرح اس ایمرجنسی کمیٹی کو بھی غیر قانونی قرار دیا اور اس پر عملدرآمد سے انکار کیا جس کے بعد ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے ایم کیو ایم کا اثر و رسوخ ستعمال کرتے ہوئے کچھ ایسے ”وعدے“ کیے جس کے بعد ایم کیو ایم کی طرف سے ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کی توسیع کے لیے وزارتِ تعلیم پر دباؤ بڑھا دیا گیا۔ نتیجتاً وزارت تعلیم نے ایمرجنسی کمیٹی کی روشنی میں اپنا سابقہ سبکدوشی کا خط واپس لیتے ہوئے ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کو مستقل وائس چانسلر کے تقرر کے بجائے اگلی سینٹ کے اجلاس تک اس شرط پر توسیع دی کہ اس کی توثیق سینٹ سے ہونی ضروری ہو گئی۔
واضح رہے کہ ماضی میں اس سے قبل بھی دو بار ایمرجنسی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں پہلے پروفیسر ڈاکٹر عارف زبیر نے اپنے لیے توسیع کی سفارش کروائی جبکہ پھر پروفیسر ڈاکٹر روبینہ مشتاق کی تشکیل کردہ ایمرجنسی کمیٹی کی سفارشات میں سابقہ ڈپٹی چیئر سینٹ اے کیو خلیل نے خود کو ہی وائس چانسلر نامزد کروانے کی سفارش کروا دی تھی ۔ ان دونوں ایمرجنسی کمیٹیوں کو بعد ازاں سینٹ سے منظوری نہیں مل سکی اور اس دوران تمام اہم اقدامات کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔
تاہم موجودہ صورتحال میں ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کو خدشہ ہے کہ 24 اپریل 2023ء کو متوقع سینٹ میں ان کی طرف سے تشکیل دی گئی ایمرجنسی کمیٹی کو بھی غیر قانونی نہ قرار دے دیا جائے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے اپنے من پسند اور ایک ہی گروپ سے تعلق رکھنے والے غیر تدریسی ملازمین کو نوازتے ہوئے مختلف اہم عہدوں سے نوازنا شروع کر دیا ہے۔
ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کے رائٹ ہینڈ سمجھے جانے والے محمد عدنان ایک غیر قانونی عہدہ پر براجمان ہیں اور بجائے رجسٹرار کے خود اپنے دفتر میں نوٹنگ و خطوط بنا کر وائس چانسلر سے منظوری حاصل کر کے رجسٹرار سے دفتری حکم پر محض دستخط کروائے جاتے ہیں۔
حالیہ عہدوں کی ”بندربانٹ“ میں آصف رفیق گریڈ 15 کے ملازم کو ڈائریکٹر پی اینڈ ڈی کا عہدہ دینا بھی شامل ہے جبکہ منتظم ثناء اللہ خان کو اسسٹنٹ رجسٹرار کا عہدہ تفویض کرنے کی اطلاعات بھی شامل ہیں۔ ثناء اللہ خان جعلی ڈگریوں کے مقدمہ میں ضمانت پر ہیں اور کافی عرصہ مفرور بھی رہ چکے ہیں اور ان پر اس طرح کے عہدہ پر پابندی بھی عائد ہے۔
اسی طرح اسسٹنٹ رجسٹرار سید دانش علی کو اسٹیبلشمنٹ جیسے اہم دفتر میں تعینات کر دیا گیا ہے جبکہ اس وقت بھی سید دانش علی پر پیسوں میں خردبرد وغیرہ جیسے الزامات پر تحقیقات جاری ہیں۔ اسی طرح شعبہ میڈیکل میں بھی تقریری و تبادلے ہوئے ہیں ۔ جبکہ مخصوص افراد کو نوازنے کی ایک طویل فہرست ہے۔ اطلاعات کے مطابق رجسٹرار پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ چند غیر تدریسی ملازمین کی غیر قانونی ترقیوں کے خطوط پر دستخط کر دیں تاکہ سینیٹ، سنڈیکیٹ اور سلیکشن بورڈ جیسے اہم فورم کی منظوری کے بغیر ہی گریڈ 17 و دیگر اعلیٰ گریڈوں میں یہ ترقیاں دی جا سکیں۔
دوسری طرف ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کی طرف سے سابقہ رجسٹرار اور سلیکشن بورڈ کی تحقیقاتی کمیٹی میں خلاف ضابطہ اور غیر قانونی اقدامات کے ذمہ دار قرار دیئے گئے ڈاکٹر محمد صارم سے سینیٹ میں حمایت کے لیے مدد مانگ لی گئی ہے۔ اب ڈاکٹر محمد صارم خفیہ ملاقاتوں کے بجائے کھلے عام اور حسبِ سابقہ گھنٹوں دفترِ رجسٹرار اور دفترِ وائس چانسلر میں دکھائی دیتے ہیں اور اہم انتظامی معاملات میں ان کی مداخلت ایک بار پھر بڑھ گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے توسیع حاصل کرنے سے قبل وفاقی وزارتِ تعلیم کو یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ ماضی کی طرح کے انتقامی، خلافِ ضابطہ اور غیر قانونی اقدامات سے گریز کریں گے اور ڈاکٹر محمد صارم یا کسی اور مخصوص گروپ کے بجائے قوانین کے مطابق یونیورسٹی کے معاملات کو چلائیں گے ۔ اگر درج بالا اقدامات کو مدنظر رکھا جائے اس یقین دہانی کی سراسر نفی ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس بات کا بھی امکان پایا جاتا ہے کہ سینٹ سے قبل مزید اور زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ اس طرح کے من پسند افراد کو نوازنے کے اقدامات سامنے آئیں گے۔

