Wednesday, December 10, 2025
صفحہ اولتازہ ترینوفاقی اردو یونیورسٹی: ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کا قائم مقام وائس چانسلر...

وفاقی اردو یونیورسٹی: ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کا قائم مقام وائس چانسلر کا متنازع ترین دور اختتام پذیر

وفاقی اردو یونیورسٹی کی سینٹ کے خصوصی اجلاس منعقدہ 15 ستمبر 2022ء میں پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین، رئیس کلیہ فنون کو چار ماہ کے لیے اردو یونیورسٹی کا قائم مقام وائس چانسلر تعینات کیا گیا۔

 

اس اجلاس میں صدرِ پاکستان و چانسلر اردو یونیورسٹی کی سربراہی میں سینٹ نے ہدایت جاری کیں کہ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین 4 ماہ کے اندر سرچ کمیٹی کو فعال کر کے مستقل وائس چانسلر کا تقرر کرنے کی اپنی اولین ذمہ داری پوری کریں گے۔

 

اسی اجلاس میں ڈاکٹر محمد ضیاء الدین پر سینٹ کے 40ویں اور 42ویں اجلاس کے تحت تقرریوں، ترقیوں اور سبکدوش کرنے کی پابندیاں عائد کی گئیں۔ ساتھ ہی روزمرہ کے امور کے علاوہ اضافی مالی ادائیگیوں کے لیے بھی سینٹ کی اجازت لازمی قرار دی گئی۔ عائد کردہ پابندیوں کی روشنی میں ڈاکٹر محمد ضیاء الدین اب مستقل وائس چانسلر کے عہدہ کے لیے امیدوار نہیں ہونگے۔

 

اسی دوران سینٹ کے 48ویں اجلاس کی تیسری نشست منعقدہ 7 دسمبر 2022ء میں جب ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کو مستقل وائس چانسلر کی تقرری تک اس عہدہ پر براجمان رہنے کی قرارداد پیش کی گئی تو اس قرارداد کی اکثریتی اراکین سینٹ نے پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الدین پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مخالفت کی اور یہ طے ہوا کہ 3 فروری 2023ء کو این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی قائم مقام کی حیثیت سے چارج سنبھالیں گے۔ اردو یونیورسٹی کی تاریخ میں کسی بھی وائس چانسلر کی کارکردگی پر اتنا جلد عدم اعتماد کا اظہار پہلے کبھی نہیں ہوا۔

 

بعدازاں ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے اس فیصلہ پر عملدرآمد کو روکنے کے لیے سینٹ کی آخری نشست کی روداد میں غیر معمولی تاخیری حربے استعمال کیے جس کے باعث ڈاکٹر ضیاء الدین کا دورانیہ ختم ہونے کے باوجود اب تک ڈاکٹر سروش حشمت لودھی کا تقررنامہ جاری نہیں ہوسکا اس کے نتیجہ میں یونیورسٹی میں ایک بار پھر وائس چانسلر کی عدم موجودگی کا امکان ہے جس سے یونیورسٹی کے مالی و انتظامی بحرانوں کی شدت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

 

ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کا چار ماہ کا مختصر دورانیہ اردو یونیورسٹی کی تاریخ کا متنازع ترین دور سمجھا جارہا ہے۔ اس دوران سینٹ کے فیصلوں کو کسی خاطر میں نہیں لایا گیا اور نہ ہی مالی معاملات میں قواعد کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا۔

 

تنخواہوں اور رینٹل سیلنگ وغیرہ جیسی ادائیگیاں مزید تاخیر کا باعث بنیں جس سے ملازمین کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا اور تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے No Salary No Work کے نعرہ تلے احتجاج بھی اخبارات کی زینت بنے۔ ان اساتذہ کو تنخواہ کا تقاضہ بذریعہ احتجاج کرنے پر شو کاز دییے گئے جبکہ ڈاکٹر محمد ضیاءالدین ادائیگیوں کے لئے منعقد کئے گئے ایسے احتجاجوں کا خود حصہ رہے۔

 

ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کا پسند ناپسند اور ذاتی رنجشوں پر مبنی ملازمین بابت اقدامات نے بھی میرٹ کی پامالی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔

 

ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کا 4 ماہ کے دورانیہ 2 فروری 2023ء کو اختتام پزیر ہوگیا۔ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے اپنے استقبالی بیان و تقاریر میں یونیورسٹی میں میرٹ کو اولین دینے اور مالی معاملات کو حل کرنے کے لیے دیگر اداروں سے رجوع کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے لیکن آج اگرگزشتہ 4 ماہ کا جائزہ لیا جائے تو یونیورسٹی میں خلاف ضابطہ اور غیر قانونی اقدامات کے ایک طویل فہرست ہے جس کی وجہ سے یونیورسٹی انحطاط پزیر ہوئی۔

 

*سرچ کمیٹی کو فعال کرنے میں ناکامی*

ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے اپنے 4 ماہ میں سرچ کمیٹی کی کارروائی کے درمیان رکاوٹیں کھڑی کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ سرچ کمیٹی میں اساتذہ کے نمائندوں کی نامزدگی کے لیے سنڈیکیٹ کا اجلاس ہی انتہائی تاخیر سے بلایا گیا۔ سرچ کمیٹی کے کنوینر و چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد بار بار جلدازجلد سرچ کمیٹی کو مکمل کرنے اور بروقت مستقل وائس چانسلر کے تقرر کے اپنے عزم کی تکمیل کے لیے بیانات دیتے اور خطوط لکھتے رہے لیکن قائم مقام انتظامیہ نے انہیں سنجیدگی سے نہ لیا۔ بعدازاں جب 2 ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد سرچ کمیٹی کا پہلا اجلاس بلایا گیا تو اس میں کورم کا مسئلہ کھڑا کر کے اسے آگے بڑھنے سے روک دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو یونیورسٹی 4 ماہ سے ایڈہاک ازم پر چل رہی ہے اور مستقل وائس چانسلر کی تقرری نہ ہونے کی وجہ سے سنگین مالی و انتظامی بحرانوں کا شکار ہے۔

 

*اداروں کی جانب سے عدم اطمینان کا اظہار*

مختلف اداروں خصوصاً ہائر ایجوکیشن کمیشن کے عدم اعتماد کی وجہ سے ایک 5 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں ایچ ای سی کے علاوہ وفاقی وزارت تعلیم کا نمائندہ بھی شامل تھا۔ اس کمیٹی نے یونیورسٹی کا دورہ کر کے سلیکشن بورڈ 2013ء اور 2017ء کے معاملات کی جانچ پڑتال کی اور اس پر رپورٹ متعلقہ اداروں کے پاس جمع کروادی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس رپورٹ میں بھی سلیکشن بورڈ سے متعلق سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔

 

*انتظامی بحران میں اضافہ*

ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے انتظامی عہدوں پر کام کرنے والے سینئر و اہل افسران کے تبادلوں کی بھی ایک تاریخ رقم ہے۔ یہ تمام تبادلے محض ذاتی بنیادوں پر کیے گئے جس میں پسند نا پسند کا عنصر شامل تھا۔ ان میں سے بیشتر ایسے افسران و دیگر ملازمین کے تبادلے شامل تھے جنہیں بغیر کسی وجہ سے ان کے بنیادوں عہدوں سے ہٹا کر غیر متعلقہ دفاتر میں بھیج دیا گیا جسے دوسری انداز میں O.S.Dبھی کہا جاسکتا ہے۔ ان تبادلوں میں ڈپٹی رجسٹرار اکیڈمک ڈاکٹر ثمرہ ضمیر کا تبادلہ شعبہ پی اینڈ ڈی، پی آر او ڈاکٹر ارم فضل کا تبادلہ احساس پروگرام، اسسٹنٹ رجسٹرار اسٹیبلشمنٹ کے عہدہ پر فرائض انجام دینے والے معراج محمد کا تبادلہ QEC، کیمسٹری کی کمپیوٹر لیب میں فرائض انجام دینے والے لیب سپروائزر خرم مشتاق کا تبادلہ دفتر ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن، اسسٹنٹ ٹریژرار زوہیب فرید کا تبادلہ شعبہ امتحانات عبدالحق کیمپس وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح کچھ ایسے افسران کو اضافی عہدوں سے نوازا گیا جن پر ماضی میں اضافی عہدوں پر تعیناتی پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ ان میں منتظم ریاض میمن بھی شامل ہیں جنہیں عبدالحق کیمپس میں کیمپس آفیسر کا عہدہ تفویض کردیا گیا جبکہ یونیورسٹی میں ہی ماضی میں کی گئی ایک انکوائری کے نتیجہ میں ریاض میمن اس عہدہ یا کسی بھی قسم کے انتظامی اضافی عہدہ کے لیے نااہل قرار دیئے جاچکے ہیں۔

 

*مالی بحران و مالی بے ضابطگیوں میں اضافہ*

ایک طرف یونیورسٹی کے ملازمین اپنی تنخواہوں و دیگر ادائیگیوں کے لیے سراپا احتجاج رہے تو دوسری طرف خلاف ضابطہ اور سینٹ کے فیصلوں کے برخلاف ادائیگیاں بھی خبروں کی زینت رہیں۔ ایک خبر کے مطابق من پسند ٹھیکہ داروں کو کروڑوں روپے کی خلاف ضابطہ ادائیگیاں کی گئیں جن کی منظوری سینٹ سے حاصل نہیں لی گئی۔ اسی خبر میں اس ادائیگی کے عوض کمیشن وصول کرنے کا بھی الزام عائد کیا گیا۔ اس کے علاوہ طلبہ تنظیموں کو خوش رکھنے کے لیے انہیں لاکھوں روپے ثقافتی پروگرام منعقد کرنے کے لیے جاری کیے گئے۔ اسسٹنٹ رجسٹرار سید دانش علی کی طرف سے جعلی بلوں کے ذریعہ ادائیگیاں بھی زیرِ بحث رہیں۔ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے اتنے مختصر عرصہ میں اسلام آباد کے متعدد دورے کیے جن میں ان کے ساتھ کئی دیگر افسران بھی شامل رہے۔ ان دوروں پر بھی لاکھوں روپے کی لاگت آئی جن میں ان افسران کے ٹی اے و ڈی اے بھی شامل ہے۔ ان غیر ضروری و طویل اور بار بار کے دوروں پر آنے والی لاگت پر بھی ایچ ای سی نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ من پسند ملازمین کو پرانی تاریخوں میں خلاف ضابطہ ادائیگیوں نے بھی اس مالی بحران میں اضافہ کیا۔

 

*غیر قانونی تقرریاں*

سینٹ کی طرف سے ڈاکٹر محمد ضیاء الدین پر تقرریاں کرنے پر سختی سے پابندی عائد کی گئی تھی۔ اس کے باوجود درجنوں ملازمین کو ازسرنو تقرر کرکے سینٹ کے فیصلہ کی خلاف ورزی کی گئی۔کیمسٹری شعبہ کے ملازم نبیل خورشید کو نہ صرف پرانی تاریخوں سے دوبارہ تقرر کیا گیا بلکہ اسے پچھلے کئی ماہ کی ادائیگیاں بھی کی گئیں۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر سائنس کے شعبہ میں بھی دانیال عرفان نامی ایک ملازم کو تقرر کرنے کی خبریں تقررنامہ کی نقل کے ساتھ شائع ہوئیں۔ اسی طرح 50 سے زائد معاہداتی و ڈیلی ویجز ملازمین جو اپنی مدت ملازمت ختم کرچکے تھے اور سابقہ مستقل وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر عطاء نے انہیں مزید توسیع دینے سے انکار کردیا تھا ان ملازمین کو بھی دوبارہ تقرر کرتے ہوئے ان کے معاہدوں میں توسیع کردی گئی۔ ان تمام تقرریوں کے ذریعہ نہ صرف ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے سینٹ کی طرف سے تفویض کردہ اختیارات سے تجاوز کیا بلکہ یہ تمام اقدامات یونیورسٹی کے مالی بحران میں اضافہ کا بھی مؤجب بنے۔

 

*بائیومیٹرک کا امتیازی استعمال*

اردو یونیورسٹی میں مورخہ 27جون 2022ء کو ایک اعلامیہ کے ذریعہ تمام ملازمین (بغیر کسی استثنیٰ کے) کو بائیومیٹرک حاضر لگانے کا پابند کیا گیا۔ بعدازاں سندھ ہائی کورٹ نے بھی C.P No. D-6427کے تحت اس نظام کو فعال کرنے کی ہدایت کی۔ اس کے باوجود چند اثرورسوخ رکھنے والے اور انتظامیہ سے قربت کے حامل اساتذہ و دیگر ملازمین کو اس سے غیر اعلانی طور پر استثنفیٰ حاصل رہا۔ دوسری طرف اس نظام کا استعمال محض انتظامیہ پر تنقید کرنے والے یا انتظامیہ سے قربت رکھنے والے ملازمین کی ناپسند شخصیات کے خلاف کیا جاتا رہا۔ ایک ملازم دانش خان کو محض سوشل میڈیا پر تنخواہ کی تاخیر سے ادائیگی پر تنقید کرنے پر اس نظام کے منفی اثرات کو جھیلنا پڑا۔ کمپیوٹر سائنس شعبہ کی استاد عاصمہ نثار کو خصوصی طور پر ہدف بناتے ہوئے اس نظام پر عملدرآمد نہ کرنے پر ان کی تنخواہ میں کٹوتی کی تنبیہ کی گئی۔ اس کے برعکس ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے اپنے قریبی ملازمین کو اس نظام سے استثنیٰ دیئے رکھی۔ المیہ یہ ہوا کہ حال ہی میں سنڈیکیٹ کے اجلاس میں ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے اراکینِ سنڈیکیٹ کو سندھ ہائی کورٹ کی ہدایت سے اندھیرے میں رکھتے ہوئے اپنے لیے حاضری سے استثنیٰ کی قرارداد منظور کروالی ہے۔ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے اس سے قبل بھی کبھی بائیومیٹرک حاضری کے نظام کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا اور ازخود استثنیٰ تصور کرتے رہے۔

 

*سرقہ نویسی کی خبریں*

پاکستان کے اردو کے صفِ اول کے ایک نیوز چینل پر ایک رپورٹ کے ذریعہ انکشاف ہوا کہ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے پی ایچ ڈی کے بعد پروفیسر بننے کی اہلیت کو پورا کرنے کے لیے اپنے بیشتر مقالے اپنے ہی پی ایچ ڈی کے مقالہ سے ”ہوبہو“ نقل کیے ہیں۔ اسی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ اس معاملہ پر ایک شکایت چند اساتذہ کی طرف سے ایچ ای سی کو بھیج دی گئی ہے تاکہ وہ ا س پر قانون کے مطابق کارروائی کرسکے۔ اطلاعات کے مطابق ایچ ای سی نے اس معاملہ پر کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔ بعدازاں پرنٹ میڈیا پر بھی اس الزام کی گردش رہی۔

News Desk
News Deskhttps://educationnews.tv/
ایجوکیشن نیوز تعلیمی خبروں ، تعلیمی اداروں کی اپ ڈیٹس اور تحقیقاتی رپورٹس کی پہلی ویب سائٹ ہے ۔
متعلقہ خبریں

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا


مقبول ترین