کراچی : وفاقی اردو یونیورسٹی کی سینیٹ کے رکن ڈاکٹر فرحان شفیق نے چانسلر کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے محمد صدیق کی غلط بیانی کو طشت ازبام کر دیا ۔
ترقیم ہے کہ 20 نومبر 2023 کو جامعہ اردو کی سینیٹ کی ایک میٹنگ ایوان صدر میں چانسلر جامعہ اردو صدر پاکستان عالی وقار کی زیر صدرات منعقد ہوئی جس میں بلاشبہ پیٹ کے معزز اراکین ، نمائندہ وزارت تعلیم اور اعلی تعلیم کمیشن نے شرکت کی۔
بحیثیتِ اساتذہ نمائندہ وفد میں بھی اس میٹنگ میں شریک تھا، چونکہ سینیٹ کی میٹنگ کا میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا اور سینیٹ کی میٹنگ سے قبل جامعہ کے اندرونی انتظامی معاملات میں بھی یکے بعد دیگر بہت تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں اور عدالتی کارروائیوں کی وجہ سے اس میٹنگ کا مجھ پر کافی دباؤ بھی تھا۔
دوسری جانب تمام اساتذہ اپنے سلیکشن بورڈ کے حوالے سے کافی فکر مند اور تشویش میں تھے اور سلسلے میں فدوی سے رابطہ کر رہے تھے جسکی وجہ شاید مختلف ذرائع سے ملنے والی وہ جھوٹی سچی خبریں تھیں جو کہ سلیکشن بورڈ کے مخالفین مختلف اخبارات وساجی رابطوں کے مختلف ذرائع سے پھیلا رہے تھے ۔
الغرض کہ ہرطرف افواہوں کا بازار گرم تھا، اسا تذہ مایوسی کی عمیق گہرائیوں میں جا چکے تھے ۔ نیز اس دباؤ کی وجہ سے میں بحثیت اساتذہ نمائندہ سینیٹ کی میٹنگ میں اس طرح سے اپنا کردار ادا نہیں کر سکا ۔ جیسا کہ مجھے بحثیت اساتذہ نمائندہ کرنا چاہئے تھا جس کا مجھے شدید افسوس ہے۔
اس تمہید کے بعد میں آنجناب و دیگر اراکین کی توجہ سینیٹ کی میٹنگ میں ہونے والی ایک انتہائی خطرناک غلط بیانی کی طرف دلانا چاہوں گا جو کہ اس وقت وزارت تعلیم کی جانب سے نامزد کیے گئے فوکل پرسن محمد صدیق کی جانب سے کی گئی ہے ۔
سینیٹ کی میٹنگ کے دوران جس وقت قائم مقام شخ الجامعہ کے لئے جامعہ کے سینئر پروفیسرز کی لسٹ چانسلر کی خدمت میں پیش کی گئی اس وقت کچھ پروفیسر حضرات کے نام پر محمد صدیق فوکل پرسن نے اعتراض کیا کہ ان کا ابھی سلیکشن بورڈ ہوا ہے جس کی سینٹ سے تصدیق ہوئی ہے ۔خصوصا ڈاکٹر محمد صارم کے نام پر انہوں نے کہا کہ انکا سلیکشن بورڈ ڈاکٹر ضیاء نے ابھی کروایا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی محمد صدیق نے پروفیسر ڈاکٹر زرینہ علی کے نام پر بھی اعتراض کیا تھا کہ ڈاکٹر زرینہ علی پروفیسر نہیں ہیں ۔ یہ دونوں باتیں سراسر غلط بیانی اور جھوٹ پذ مبنی تھیں ۔
ان کی اس غلط بیانی نے آنجناب و سینیٹ کے معزز اراکین کو گمراہ کیا اور انکی اس غلط بیانی کو سچ مان کر پروفیسر ڈاکٹر زرینہ علی کا نام قائم مقام شخ الجامعہ کے لئے پیش کی گئی لسٹ سے نکال دیا گیا اور یہ سب کچھ اتنا آناً فاناً ہوا کہ فدوی کو کچھ سمجھ نہ آیا اور اس وقت ڈاکٹر زرینہ علی کے پروفیسر کے عہدہ پر لگے جھوٹ کا بھی دفاع نہیں کر سکا جس کا مجھے ساری زندگی افسوس رہے گا ۔
اس موقع پر آن لائن شریک محترم رکن سینیٹ جناب واجد جواد نے اس غلط بیانی کو دور کرنے کی کوشش کی اور سینیٹ کو بتایا کہ پروفیسر ڈاکٹر زرینہ علی 2018 سے پروفیسر ہیں مگر ان کے اس بیان کو بھی نظر انداز کر دیا گیا اور پھر ووٹنگ کے ذریعے صرف دو پروفیسرز میں سے قائم مقام شخ الجامعہ کا انتخاب کر لیا گیا جو کہ باقی پروفیسرز کے ساتھ صریحاً زیادتی تھی ۔
عالی وقار چانسلر و معزز اراکین سینیٹ، ایک انتہائی اہم میٹنگ میں جان بوجھ کر کی گئی غلط بیانی نے ایک قابل اور اہل پروفیسر جو کہ ایک سال سے زائد جامعہ ارود کی قائم مقام رجسٹرار کے فرائض بھی انجام دے چکی ہیں ان کو ان کے ایک جائز حق سے محروم کر دیا گیا جو کہ ان کے ساتھ زیادتی ہے ۔
فدوی کا اس خط کو لکھنے کا مقصد محمد صدیق صاحب کی جانب سے غلط بیانی اور جناب چانسلر اراکین سینیٹ کو گمراہ کرنے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا ہے ۔ نیز اس خدشہ کا اظہار بھی ہے کہ مستقبل میں ہونے والی اہم میٹنگز میں اس طرح کی غلط بیانیوں کا سد باب کیا جاۓ تاکہ جامعہ کے اہم انتظامی فیصلوں میں کسی بھی قسم کی سازش کو دور رکھا جائے اور اعلی سطح پر کئے جانے والے فیصلے کسی بھی قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہوں ۔

