کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا ہے کہ طبی تحقیق کی حوصلہ افزائی درحقیقت پاکستان میں طب کے مستقبل کی تعمیر ہے۔
نئے ڈاکٹرز کو ریسرچ کی جانب راغب کرنے کی کوشش اس لئے کر رہے ہیں کہ مستقبل میں پاکستانی معاشرہ اس سے مستفید ہوکر صحت عامہ کے مسائل حل کر سکے۔
ڈاؤ یونیورسٹی طبی تحقیق سے وابستہ نوجوان ڈاکٹرز کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ اس کے لئے "وائس چانسلر انیشی ایٹو فنڈز” سے گرانٹ حاصل کرنے کے لئے سب کو مساوی مواقع حاصل ہیں۔
ریسرچ کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے کہ ہماری بائیو ٹیکنالوجی کی ریسرچ کا مقالہ دی ٹائمز ہائر ایجوکیشن کی ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ میں شامل ہوا۔ یہ باتیں انہوں نے پاکستان سوسائٹی آف اوٹو رینولیرینگیالوجی کے اشتراک سے ڈیجیٹل لائبریری ہال میں منعقدہ تیسری سالانہ ای این ٹی سمٹ فار ریزیڈینٹس سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہی۔
اس موقع پر پرو وائس چانسلر پروفیسر کرتار دوانی، پروفیسر عمر فاروق، پرنسپل ڈی آئی ایم سی ڈاکٹر زیبا حق، پروفیسر زاہد اعظم، پروفیسر سلمان احمد، پروفیسر عاطف حفیظ صدیقی، ڈاکٹر شجاع فرخ ڈاکٹر شاہین ملک اور پروفیسر کاشف شفیق بھی موجود تھے۔
پروفیسر محمد سعید قریشی نے ینگ ڈاکٹرز سے کہا کہ وہ خاموش نہ بیٹھیں بلکہ اپنی تحقیق پر بلا جھجک بات کر کے اس کا دفاع کریں اگر ان کے مقالے پر کوئی تنقیدی سوال اٹھتا ہے تو اس کو اپنی اصلاح کے طور پر لیں اور اپنی غلطی کو دور کر کے اس کا دوبارہ پیش کریں تاکہ آپ اس غلطی سے کچھ سیکھ سکیں۔
سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین سمٹ پروفیسر عاطف حفیظ صدیقی نے کہا کہ عالمگیر ریسرچ میں پاکستان مجموعی حصہ محض اعشاریہ 58 فیصد ہے، اس مجموعی ریسرچ میں طبی ریسرچ کو لیا جائے تو بہ مشکل اسکا بھی 28 فیصد بنتا ہے۔ دنیا میں ریسرچ کی درجہ بندی میں سب سے پہلا نام امریکہ دوسرا برطانیہ تیسرا ملک چین ہے۔
مسلم ممالک میں صرف ایران اور ترکی کا نام آتا ہے، باقی تو نہ 20 کی رینکنگ میں آتے ہیں اور نہ ہی 30 کی رینکنگ میں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں تحقیق میں نئے نظریات، اختراعات کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔ موافق حالات اور آسانیاں پیدا کر کے نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اب تک ایسا نہیں ہوسکا تو کوئی بات نہیں، اس کا آغاز اب کیا جائے۔
تیسری ای این ٹی سمٹ میں ینگ ڈاکٹرز نے اپنے ریسرچ کے حوالے سے پریزنٹیشنز پیش کیں۔
سمٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والی ضیاالدین یونیورسٹی کی ڈاکٹر ثوبیہ اختر نے اپنے مقالے ‘آوٹ کمز آف الیکٹو ٹریکیا سٹومی ان آئی سی یو’ سے ماخوذ میں بتایا کہ اسڑوک اور ٹائپ 2 ریسپیریٹری فیلیئر جیسے امراضِ میں مبتلا مریضوں میں مستقل طور پر ٹریکیا سٹومی کئےجانے کا امکان بڑھتادیکھا گیا، جبکہ تقریبا ٹراما یا ہارٹ فیلیئر کے مریضوں میں علاج کے بعد ٹریکیا سٹومی ٹیوب نکالی جاتی ہیں۔
دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی ڈاؤ یونیورسٹی کی سدرہ بانو کے مقالے کا عنوان ” کمپریژن بیٹ وین دی یوز آف ہائپرٹانک سیلائن اینڈ نارمل سیلائن ان دی ٹریٹمنٹ آف کرانک رائنوسائٹس” تھا۔
تیسری پوزیشن حاصل کرنے والی ڈاکٹر سمیرا ستار (پٹیل اسپتال) نے اپنے مقالے "پرائمری نیزل ٹیوبرکلوسس-سسٹامیٹک ریویو” سے ماخوذ میں بتایا کہ پرائمری نیزل ٹیوبرکلوسس ۔ ٹی بی کی ایک کمیاب قسم ہے جس کو فراموش کردیا جاتا ہے۔ اس لیے کرانک نیزل کی علامات کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف امراض کی تشخیص کرنی چاہیے۔ تقریب کے اختتام پر مہمانِ خصوصی پروفیسر محمد سعید قریشی نے منتظمین کو سمٹ کے انعقاد پر سراہا جبکہ پوزیشن حاصل کرنے والے ینگ ڈاکٹرز کو شیلڈز سے بھی نوازا گیا۔