کراچی : وفاقی اردو یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے یونیورسٹی کی سینٹ کی جانب سے کیے گئے فیصلہ کے مطابق اور وفاقی وزارتِ تعلیم کے جاری کردہ تقرر نامہ کے مطابق اپنے چھ ماہ کا عرصہ مکمل کر لیا ہے ۔
ابتدائی طور پر سینیٹ کے خصوصی اجلاس منعقدہ 15 ستمبر 2022ء میں کیے گئے فیصلہ کے مطابق ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کو چار ماہ کے لیے قائم مقام وائس چانسلر کا عہدہ تفویض کیا گیا تھا اور ان پر تقرریوں اور ترقیوں کی پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ روزمرہ کے مالی معاملات کے علاوہ ادائیگیوں پر پابندی عائد کی گئی تھی ۔
ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کو مستقل وائس چانسلر کے تقرر کے لیے سرچ کمیٹی کی کارروائی کو جلد از جلد مکمل کرنے کی اولین ذمہ داری تفویض کی گئی تھی ۔ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کی طرف سے سنڈیکیٹ کے اجلاس میں تاخیر اور دیگر تاخیری حربوں کی وجہ سے سرچ کمیٹی آج تک اپنا کام شروع ہی نہیں کر سکی ہے جس کی وجہ سے ایک بار پھر یونیورسٹی میں مستقل وائس چانسلر کا تقرر ایک خواب بن کر رہ گیا ہے ۔
اس دوران ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے نہ صرف سینیٹ کی ہدایت کے بر خلاف مالی ادائیگیاں کیں اور کرپشن اور کک بیکس کے الزامات کی زد میں بھی آئے بلکہ تقرریوں اور ترقیوں کے معاملات میں بھی انہوں نے سینیٹ کی ہدایات کو پسِ پشت ڈال کر رکھ دیا اور درجنوں تقرریاں کیں ۔
4 اپریل کے بعد یونیورسٹی میں قانونی طور پر کوئی وائس چانسلر موجود نہیں ہو گا لیکن اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے خفیہ طور پر یونیورسٹی آرڈیننس کے باب سوم کی شق 11(4) کا سہارا لیتے ہوئے ایمرجنسی کمیٹی کو بنیاد بنا کر اپنی توسیع کی سفارش وفاقی وزارتِ تعلیم کو ارسال کر دی ہے ۔
یونیورسٹی کے آرڈیننس کی شق 11(4) کے مطابق مطابق ”وائس چانسلر اپنی دانست میں کسی بھی ہنگامی صورت میں کہ فوری کارروائی درکار ہو وہ کسی ایسے معاملے کو جو عام حالات میں وائس چانسلر کے دائرہ اختیار میں نہ ہو ، سینٹ کی تین رکنی ایمرجنسی کمیٹی کو مقرر کردہ ضابطہ کے مطابق مناسب کارروائی کے اختیارات کے حصول کے لیے بھیج سکتا ہے ۔
تاآنکہ اس ذیلی دفعہ کے مقصد کے لیے کسی بھی معاملہ کو سینٹ کی ایمرجنسی کمیٹی کو بھیجنے کے لیے مواصلات کا کوئی بھی ذریعہ استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ ضروری نہیں ہو گا کہ کمیٹی اس معاملہ پر غور کرنے اور کارروائی کا مجاز قرار دینے کے لیے اس کے تمام اراکین ایک جگہ جمع ہوں ۔“
اس سے قبل پروفیسر ڈاکٹر عارف زبیر کی بحیثیت قائم مقام وائس چانسلر 6 جولائی 2020ء کو اپنے دورانیہ کی تکمیل پر ڈاکٹر عارف زبیر نے ایمرجنسی کمیٹی تشکیل دے کر اپنی توسیع کروالی جس کے بعد صدرِ پاکستان و چانسلر اردو یونیورسٹی کی سربراہی میں سینٹ کے 43ویں اجلاس میں ایمرجنسی کمیٹی کے اس فیصلہ کی توثیق نہ ہو سکی اور یہ خلافِ ضابطہ اقدام کرنے پر ڈاکٹر عارف زبیر کو اس عہدہ سے برطرف کر دیا گیا تھا اور پروفیسر ڈاکٹر روبینہ مشتاق کو قائم مقام وائس چانسلر تعینات کر دیا گیا تھا ۔
بعد ازاں جب پروفیسر ڈاکٹر روبینہ مشتاق کا دورانیہ مورخہ 16 ستمبر 2021ء کو مکمل ہوا تو انہوں نے بھی اسی دن اپنی توسیع کے لیے ایمرجنسی کمیٹی تشکیل دی جس میں سابقہ ڈپٹی چیئر سینٹ اے کیو خلیل، موجودہ سینیٹر واجد جواد اور سابقہ سینیٹر شکیل الرحمن شامل تھے ۔
ڈاکٹر روبینہ مشتاق کو توسیع دینے کے بجائے اس کمیٹی کے ذریعہ اے کیو خلیل نے خود ہی دفترِ شیخ الجامعہ کا چارج سنبھال لیا تھا اور ڈاکٹر روبینہ مشتاق کو 5:00 بجے دفتر سے روانہ کر دیا ۔ اس کے بعد صدرِ پاکستان نے اس معاملہ کا نوٹس لیا اور جب یہ معاملہ سینٹ کے 48 ویں اجلاس منعقدہ 25 اکتوبر 2021 ء میں توثیق کے لیے پیش کیا گیا تو وفاقی وزارت تعلیم، ایچ ای سی اور ایوانِ صدر کے نمائندہ نے بھی اس کمیٹی کے فیصلہ کی مخالفت کرتے ہوئے اسے خلافِ قانون قرار دیا ۔
جس کے بعد اس معاملہ کی جانچ کے لیے ایک دو رکنی ریویو کمیٹی تشکیل دے دی گئی ۔ اس کمیٹی میں وزارت تعلیم کے موجودہ سیکریٹری وسیم اجمل چوہدری اور پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم کو شامل کیا گیا ۔ اس کمیٹی کو یونیورسٹی آرڈیننس اور مروجہ قوانین کی روشنی میں ایمرجنسی کمیٹی کی قانونی حیثیت اور اے کیو خلیل کی طرف سے نگراں دفترِ شیخ الجامعہ کی حیثیت سے کیے گئے فیصلوں کو ریویو کرنے کی ذمہ داری دی گئی ۔
اس ریویو کمیٹی کی رپورٹ کی سفارشات کے مطابق ایمرجنسی کمیٹی کا اجلاس بلانے کا مقصد موجودہ شیخ الجامعہ کی مدد کرنا ہے تاکہ اگر کوئی ایسا فیصلہ جو صرف سینٹ کی منظوری سے ہی ہو سکے اور اس فیصلہ کا فوری طور پر ہونا ضروری ہو ، جب کہ متعین دورانیہ میں سینٹ کا اجلاس بلانا ممکن نہ ہو تو ایمرجنسی کمیٹی اس فیصلہ کی بابت طے کر سکتی ہے ۔
تاہم بعد ازاں جب بھی سینٹ کا اجلاس منعقد ہو اس فیصلہ کی توثیق سینٹ سے کروانی چاہئے ۔ سفارشات میں مزید کہا گیا ہے کہ اردو یونیورسٹی آرڈیننس کے مطابق شیخ الجامعہ کی تقرری و برطرفی کا اختیار صرف سینیٹ کو سونپا گیا ہے ۔
ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ چونکہ اس وقت یونیورسٹی کی سینیٹ کا اجلاس بھی کورم کے نامکمل ہونے کی وجہ سے ممکن نہیں ۔ لہٰذا یونیورسٹی کے آرڈیننس، سینیٹ کے فیصلوں اور ریویو کمیٹی کی سفارشات کے باوجود پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کی طرف سے ایمرجنسی کمیٹی کا اجلاس بلا کر اس میں اپنی توسیع کروانا خلافِ ضابطہ اور محض اپنے تکمیل شدہ دورانیہ کو بڑھانا، ذاتی فوائد کا حصول اور اس کے نتیجہ میں یونیورسٹی کو ایڈہاک ازم کے ذریعہ مزید بحرانوں میں مبتلا کرنے کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہیں دیتا ۔ اس صورتحال پر صدرِ پاکستان و چانسلر کو فوری نوٹس لینا چاہئے ۔
اس بات کا بھی امکان ہے کہ وفاقی وزارتِ تعلیم ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کی طرف سے تقررنامہ کے مطابق اپنا دورانیہ مکمل کرنے کے باوجود غیر قانونی طریقہ سے قائم مقام وائس چانسلر کے عہدہ پر براجمان رہنے اور وائس چانسلر کے اختیارات کا استعمال کرنے پر کوئی سخت قانونی کارروائی عمل میں لا سکتی ہے ۔