بدھ, اپریل 24, 2024
صفحہ اولتازہ ترینوفاقی جامعہ اردو کے قائم مقام VC کی توسیع کی درخواست عدالت...

وفاقی جامعہ اردو کے قائم مقام VC کی توسیع کی درخواست عدالت سے خارج ‛ 10 ہزار جرمانہ عائد

کراچی : سندھ ہائی کورٹ (SHC) نے منگل کو قائم مقام وفاقی اردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (Fuuast) کے وائس چانسلر کی وہ درخواست خارج کر دی جس میں مستقل وائس چانسلر کی تقرری تک ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی درخواست کی گئی تھی۔

محمد ضیاء الدین نے اپنی درخواست میں کہا کہ انہیں ایک مخصوص مدت کے لیے جامعہ کا قائم مقام وائس چانسلر مقرر کیا گیا تھا اور یہ مدت 2 اپریل کو ختم ہو گئی تھی۔

محمد ضیاء الدین نے کہا کہ 10 اپریل کو وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کی وزارت نے ان پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ 2 اپریل سے کسی بھی انتظامی اور مالیاتی اختیارات کو استعمال کرنے سے روک رکھا ہے ۔

جس میں صاف لکھا تھا کہ 2 اپریل کے بعد اس طرح کے اختیارات کا کوئی بھی استعمال غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔

قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین کے وکیل محمد نشاط وارثی نے کہا کہ نوٹیفکیشن غیر قانونی ہے کیونکہ سینیٹ کو ہی وی سی کی تقرری کا واحد اختیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری جواب دہندگان جان بوجھ کر قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ جواب دہندگان سینیٹ کی سفارشات کو حتمی شکل نہیں دے رہے تھے، وہ سینیٹ کے ارکان کی تقرری نہیں کر رہے تھے اور وہ ریگولر وی سی کی تقرری کے معاملے میں تاخیر کر رہے تھے اور ساتھ ہی درخواست گزار کی مدت ملازمت میں توسیع کی سفارشات کو نظر انداز کر رہے تھے۔

عدالت سے استدعا کی گئی کہ غیر قانونی نوٹیفکیشن کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور وفاقی جامعہ اردو کو ریگولر وی سی کی تقرری کے عمل کے مکمل ہونے تک درخواست گزار کی مدت ملازمت میں توسیع کی ہدایت کی جائے۔

جس پر جسٹس محمد شفیع صدیقی کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے درخواست گزار کے وکیل سے پوچھا کہ درخواست گزار کا متعلقہ دفتر کو برقرار رکھنے کا کیا حق ہے اور غیر قانونی نوٹیفکیشن سے درخواست گزار کے کون سے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر ضیاء الدین کے وکیل نشاط وارثی عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے ، جس پر عدالت نے پھر کہا کہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ درخواست گزار کو ایک مخصوص مدت کے لیے قائم مقام VC بنایا گیا تھا، اور یہ مدت 2 اپریل کو ختم ہو گئی تھی۔ درخواست گزار کو اس کے بعد کسی بھی صورت عہدہ کو استعمال کرنے سے روکا گیا ہے ۔

سندھ ہائی کورٹ نے ڈاکٹر ضیاء الدین کو حکم دیا کہ آپ کو دفتر استعمال کرنے کا کوئی بھی حق نہیں ہے ۔ اور اس کے باوجود آپ استعمال کر رہے ہیں ۔ عدالت نے کہا کہ درخواست کو غلط فہمی میں پایا گیا ہے اور اس لیئے ڈاکٹر ضیاء الدین کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اندر ایس ایچ سی کلینک فنڈ میں 10,000 روپے جمع کرائیں ۔ اس کے ساتھ ہی ان کی درخواست خارج کر دی گئی ۔ عدالت نے مزید کہا کہ اگر سندھ ہائی کورٹ کے کلینک میں 10 ہزاذ روپے جمع نہ کیئے تو ڈاکٹر ضیاء الدین کا شناختی کارڈ معطل کیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں

مقبول ترین