جمعرات, مارچ 28, 2024
صفحہ اولتازہ ترینوزارت تعلیم کی قومی رحمۃ للعالمین و خاتم النبین اتھارٹی کے نئے...

وزارت تعلیم کی قومی رحمۃ للعالمین و خاتم النبین اتھارٹی کے نئے چیئرمین کی سمری وزیر اعظم آفس ارسال

اسلام آباد : سفارش ایک مرتبہ پھر متحرک ہوگئی ہے. بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے جونئیر پروفیسر ڈاکٹر الیاس سینئر ترین لوگوں میں سے پھر آگے نکل گئے ہیں۔

اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر کی پوزیشن سے مسترد ہونے کے بعد قومی رحمۃ للعالمین و خاتم النبین اتھارٹی کے چیئرمین بننے کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں۔ وزارت تعلیم نے قومی رحمۃ للعالمین و خاتم النبین اتھارٹی کے چیئر مین مقرر کرنے کی سمری وزیر اعظم آفس ارسال کردی ہے۔

گزشتہ حکومت کی آرڈیننس پر قائم کردہ قومی رحمۃ للعالمین و خاتم النبین اتھارٹی کو موجودہ حکومت نے ایکٹ بنانے کے بعد چیئر مین سمیت دیگر پوسٹوں کے لیے باقاعدہ اشتہار جاری کیا تھا۔ وزارت تعلیم کو اتھارٹی چیئر پرسن سمیت چھ ممبران کے لئے پورے پاکستان سے نیشنل جاب پورٹل کے ذریعہ 150 زائددرخواستیں موصول ہوئی تھیں۔ پہلے مرحلہ میں چیئرپرسن کے انتخاب کے لیے 6، اپریل کو ہونے والی انٹرویو کمیٹی کی صدارت وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین نے کی جب کہ وفاقی سیکرٹری تعلیم ، جوائنٹ سیکرٹری ایڈمن، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، پلاننگ کمیشن، وزارت مالیات کے ممبران بھی موجود تھے۔

چیئر پرسن منصب کے انٹرویوں کے لیے پورے پاکستان سے 17 امیدواروں کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت نے چیئر پرسن منصب کے لیے عمر کی حد 62 سال ،متعلقہ شعبہ کا تجربہ،16 سال، پوسٹ کا دورانیہ تین سال اور اسکیل ایم پی ون مقرر کیا تھا۔ شارٹ لسٹ امیدواران کے انٹرویوں خط کے مطابق سول اور گورنمنٹ ملازمین کے لیے ضروری قرار دیا کہ وہ اپنے اداروں سے باقاعدہ تحریری اجازت نامہ حاصل کریں گے۔ 17 شارٹ لسٹ لوگوں میں پاکستان کی نامور سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیز ، دینی مدارس و دیگر سرکاری اداروں سے وابستہ امیدوار ان شامل تھے۔

وزارت تعلیم کے مستند قریبی زرائع کے مطابق انٹرویوکے بعد تین نام کی سمری میں اعلیٰ سفارش کی بنیاد پر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ڈاکٹر الیاس کا نام حیرت انگیز طور پر شامل کر دیا گیا۔

جب کہ زرائع کے مطابق انٹریوں میں اسلامی یونیورسٹی شعبہ آئی آر آئی کے ڈائیریکٹر جنرل سینئر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق، اسلامی نظریاتی کونسل 21 گریڈ کے سیکریٹری پروفیسر ڈاکٹر حافظ اکرام الحق یاسین سمیت دیگر اہل امیدواروں کو انٹرویو میں ناکام ظاہر کر کے اسلامی یونیورسٹی کے جونیئر پروفیسر ڈاکٹر الیاس کا نام سمری میں شامل کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل بھی ڈاکٹر محمد الیاس کا نام بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر مقرر کرنے کے لیے پہلے نمبر پر نام شامل کیا گیا تھا۔ جب اس وقت بھی انٹرویو ریکارڈ کے مطابق دیگر یونیورسٹیز کے علاوہ اسلامی یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر سمینہ ملک ،ڈاکٹر ضیاء الحق، ڈاکٹر ظفر اقبال، ڈاکٹر طاہر خلیلی، ڈاکٹر حسن الامین دیگر انتہائی قابل ترین اور سینئر پروفیسرز شامل تھے لیکن جونیئر پروفیسر ڈاکٹر محمد الیاس کو حکومت میں موجود مذہبی سیاسی جماعت کی اعلیٰ قیادت کی سفارش پر وزیر اعظم آفس بھیجی جانے والی سمری میں پہلے نمبر پر رکھا گیا تھا۔

وزارت تعلیم کے زرائع کے مطابق سمری وزیر اعظم آفس پہنچنے سے قبل ہی ڈاکٹر الیاس کی یونیورسٹی میں ناقص کارکردگی اور نااہلی کے سبب یونیورسٹی کی اعلی سینئر قیادت کی جانب سے تشویش کا اظہار بھی سامنے آچکا ہے اور باقاعدہ یونیورسٹی کے سینئر لوگوں نے وزارت تعلیم اور وزیر اعظم آفس، پارلیمانی و سینٹ کے کچھ اراکین کو خطوط لکھ کر متوجہ بھی کیا تھا۔

تاہم کچھ تحقیقاتی اداروں کی منفی رپورٹس کے بعد وزیر اعظم آفس سے سمری پر اعتراض لگا کر وزارت تعلیم کو واپس بھیج کر ریکٹر کا انتخاب دوبارہ نئے سرے سے کرنے کی تجویز سامنے آئی۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں ایک مرتبہ پھر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور اسلامی یونیورسٹی ریکٹر کے منصب کے لیے دوبارہ اشتہار جاری کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی زرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم آفس سے یونیورسٹی ریکٹر کی سمری مسترد ہونے کے بعد ڈاکٹر الیاس نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی اعلیٰ مذہبی سیاسی قیادت کی سفارش پر قومی رحمۃ للعالمین و خاتم النبین اتھارٹی کے چیئر مین کے تقرر کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں اور حکومت میں شامل اسی سیاسی مذہبی چینل کی اعلیٰ قیادت کو استعمال کر کے سیاسی دباو کے تحت سمری میں نام شامل کروا لیا ہے۔

اب اس بات کا قوی امکان ہے کہ اعلیٰ سیاسی قیادت کی سفارش پر ڈاکٹر الیاس ہی قومی رحمۃ للعالمین و خاتم النبین اتھارٹی کے چیئر مین بنائے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

انٹرویو میں شامل چند سینئر اور اہل افراد کی جانب سے اشارہ ملا ہے کہ اگر ڈاکٹر الیاس چیئرمین مقرر کر دیئے گئے تو اس مرتبہ وزارت تعلیم کی سمری کے خلاف قانونی طور پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں

مقبول ترین