Wednesday, December 10, 2025
صفحہ اولبلاگسپلا کا محکمہ تعلیم کالجز میں رشوت ستانی پر ضمیمہ جاری

سپلا کا محکمہ تعلیم کالجز میں رشوت ستانی پر ضمیمہ جاری

سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن (سپلا) کی جانب سے جاری ایک تفصیلی ضمیمہ میں کہا گیا ہے کہ ایک منظم اور رجسٹرڈ تنظیم ہے جو کالج اساتذہ کے حقوق اور مسائل کے لیے کام کرتی ہے۔ سپلا مرکزی الیکشن کے ذریعے منتخب ہونے والے مرکزی اراکين سمیت سپلا سٿ کے ساتھی آج یہاں ایک پریس کانفرنس کے ذریعے خاص طور پر حیدرآباد ضلع اور اطراف کے کالج اساتذہ کی آواز ایوان بالا تک پہنچانے کے لیے جمع ہوئے ہیں ۔

سپلا مرکز سمیت حیدرآباد ریجن سے تعلق رکھنے والے ان تمام رہنمائوں نے کئی بار وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ اور سیکریٹری کالج ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی توجہ کالج اساتذہ کے مختلف مسائل اور ان کے حل کے بارے میں دلانے کی کوشش کی، لیکن ان کی عدم دلچسپی یا ضرورت سے زیادہ مصروفیت کی وجہ سے یہ مسائل جوں کے توں رہے ہیں۔

عدم دلچسپی کا عالم اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ وزیر تعلیم بار بار درخواستوں کے باوجود سپلا کے منتخب اراکين سے ملنے کو تیار نہیں ہیں ۔ جس کی وجہ کالج اساتذہ کی نمائندہ تنظیم سپلا رہنماؤں کو نظر انداز کرنا یا کالج ڈیپارٹمنٹ کے اسٹیک ہولڈرز تنظيم سپلا کے اراکين کو دیوار سے لگانا ہو سکتا ہے۔ وزير موصوف کی تمام تر توجہ محکمہ سکول یا کلچر ڈیپارٹمنٹ سمیت دیگر محکموں کے کام پر مرکوز ہے ۔

محکمہ تعلیم کالج کے ساتھ وزیر تعلیم کے غیر ذمہ دارانہ اور لاپرواہی پر مبنی رویے کی وجہ سے نہ صرف محکمہ کالج کے اساتذہ کو نقصان ہو رہا ہے بلکہ کالج کے طلباء کی تعلیم بھی متاثر ہو رہی ہے اور کالج تباہ ہو رہے ہیں ۔ کالج اساتذہ کی نمائندہ تنظیم سپلا کے پلیٹ فارم سے ہم واضح کر رہے ہیں کہ وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ کا دفتر دور دراز علاقوں میں کالج اساتذہ کی براہ راست تقرری اور تبادلہ کر کے اساتذہ سے بھاری رشوت لینے میں مصروف ہے ۔ جس کی وجہ سے کالج کے اساتذہ ذہنی اضطراب کا شکار ہیں۔ اور انکو بے چینی، شدید اضطراب اور ذہنی اذیت کا سامنا ہے ۔

کالج ڈیپارٹمنٹ میں رشوت ستانی کا بازار اس قدر گرم ہے کہ ملازمین کی کوئی فائل (بشمول ہر قسم کی چھٹی، این او سی، ایم فل /پی ایچ ڈی الاؤنسز اور ہر قسم کے چھوٹے بڑے کام) بغیر رشوت کے کسی ایک ٹيبل سے دوسری ٹيبل تک منتقل نہیں ہوتے ۔ اگر کوئی ملازم رشوت کی رقم ادا نہیں کرتا تو اس کی فائل گم ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہم پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ کالج کے شعبہ کو بھی رحم و کرم کی نظر سے دیکھیں ۔

وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ کی مختلف محکموں کی مصروفیات کے سبب کالج کے محکمہ کو ایک الگ محکمہ قرار دیا جائے۔ یونیورسٹی اور بورڈز ڈیپارٹمنٹ کی طرح کالج ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو بھی اپنا درجہ دیا جائے اور وہاں ایک سنجیدہ اور قابل وزیر کا تقرر کیا جائے تاکہ محکمہ کالج میں بھی بہتری آسکے۔ کیونکہ کالج کا شعبہ سندھ کی ترقی اور شعور میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ سندھ کے مستقبل کے ڈاکٹر، انجینئر اور دیگر پروفيشنل بچے ان کالجوں سے تعليم حاصل کرکے معا شرے کی ترقی کا ذريعہ بنتے ہيں۔ اس کے لیے کالج ڈیپارٹمنٹ کا الگ وزیر مقرر کیا جائے۔

اس کے علاوہ سپلا کے اہم اور پرانے مطالبے کو تسلیم کرنے اور کالج اساتذہ کے چار نکاتی سروس سٹرکچر کے ريشو پر نظرثانی کرنے پر سپلا سندھ کابینہ کا شکریہ ادا کر رہی ہے جس کی وجہ سے گریڈ 17 سے گریڈ 20 تک کالج اساتذہ کی تعداد تقریبا 1700 سے زائد اساتذہ کو ترقیاں دی گئی ہیں جس سے ایک طرف کالج کے اساتذہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے تو دوسری طرف کالج کے شعبہ میں نہ ختم ہونے والی کرپشن کی وجہ سے وہ شدید پریشانی اور ذہنی الجھن کا شکار ہیں۔ ان کی رہائش گاہ سے دور علاقوں میں تقرریوں کی وجہ سے حیدرآباد اور گردونواح کے اساتذہ کو دور دراز علاقوں میں تعینات کیا جاتا ہے اور پھر ان کی مقرری يا تبادلے کے باعث لاکھوں روپے رشوت طلب کی جاتی ہے۔

سندھ کالج ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں حال ہی میں گریڈ 17 سے گریڈ 18 میں مرد و خواتین اسسٹنٹ پروفیسرز اور گریڈ 19 میں مرد و خواتین ایسوسی ایٹ پروفیسرز کے طور پر ترقی دی گئی ہے۔ پھر بھاری رشوت مانگ کر انہیں حیدرآباد اور قریبی کالجوں میں پوسٹنگ دی جاتی ہے۔ جب کہ اس تناظر میں ویڈ لاک پالیسی، سخت بیمار یا مصیبت زدہ اساتذہ جیسے مشکل معاملات کو نظر انداز کیا جاتا ہے، صرف ان اساتذہ کو حیدرآباد اور گردونواح میں پوسٹنگ دی جاتی ہے، جو انہیں بھاری رشوت دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں سپلا کئی بار سیکرٹری کالجز سے بھی ملاقات کر چکے ہیں لیکن تحال کوئی حل نہیں نکل سکا ۔

سیکرٹریٹ کے ذرائع کے مطابق اس کی وجہ وزیر تعلیم کا دفتر ہے کیونکہ پالیسی دینے سے ان کی رشوت ستانی کا سلسلہ رک جانے کا خدشہ ہے۔ اس کے علاوہ رشوت ستانی کی راہ ہموار کرنے کے لیے حیدرآباد کے 25 اساتذہ کو غیر قانونی طور پر قانونی تقاضے پورے بغير ايکسپلينيشن دی گئی ہے۔ جس کو سپلا یکسر مسترد کرتے ہیں اور کالج ڈیپارٹمنٹ کے ایسے اقدام کی مذمت کرتے ہیں۔سپلا نے اس ظلم اور تشدد کے خلاف ہر ریجن کی سطح پر احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے ۔

اس تناظر میں کالج اساتذہ سے بھی رابطے تیز کر دیے گئے ہیں اور رشوت ستانی، ٹرانسفر پوسٹنگ پالیسی اور کالج اساتذہ کی تقرریوں کے خلاف پير صبح گیارہ بجے حیدرآباد پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس میں حیدرآباد ریجن کے ہر کالج ٹیچر کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔ اس مظاہرے ميں مزید آگے کا لائحہ عمل کا اعلان بھی کیا جائے گا۔

سندھ کے کالجز کو کھیلوں اور سائنسی آلات کی خریداری کے لیے 9 کروڑ روپے دیے گئے ہیں، اساتذہ کو ایوارڈ دینے کے پروگرام میں کالج ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کی گئی کرپشن بھی شامل ہے۔ جس میں وزیر تعلیم اور سیکرٹری کے نام پر پرنسپلز سے نصف سے زائد کیش واپس لی گئی ہے۔ جس کے مبینہ ثبوت بھی دستیاب ہیں۔ اس تناظر میں سپلا متعلقہ حکام اور وزیر اعلیٰ سندھ سے ملاقات کر کے ثبوت اور شواہد فراہم کریں گی کہ کس طرح سندھ کی تعلیم کے ساتھ دھوکہ کیا جا رہا ہے اور بچوں کے پیسوں سے کھیلا جا رہا ہے۔

سپلا نے یہ بھی واضح کیا کہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ اور سیکرٹری کالجز اور متعلقہ حکام نے حیدرآباد ضلع میں اساتذہ کی نشستیں کم کرنے کی تیاری کر لی ہے۔ جس کی وجہ سے آئندہ بجٹ میں حیدرآباد ضلع کے اساتذہ کی سیٹیں دیگر دور دراز علاقوں کے کالجوں کو دی جائیں گی۔ جس سے اساتذہ کو وہاں سے نکال دیا جائے گا اور پھر ٹرانسفر کے نام پر لاکھوں روپے رشوت لینے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ تاہم حیدرآباد اور جامشورو کی آبادی میں اضافے کی وجہ سے اب بھی مزيد نئے کالجوں کی اشد ضرورت ہے اور اساتذہ اور طلبہ کے تناسب کے تحت مزید اساتذہ کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود دور دراز مقامات سے اساتذہ کو بھيجنا تعلیم دوست فیصلہ نہیں ہے۔ سپلا کی جانب سے اس طرح کے اقدام کی سخت مخالفت اور ردعمل کا اظہار کیا جائے گا۔وزیر تعلیم اور سیکرٹری کالجز اس کے ذمہ دار ہوں گے۔

دوسری جانب سپلا کالج اساتذہ کو بائیو میٹرک کے ذریعے آئے روز نت نئے طریقوں کے ذریعے ہراساں کرنے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔بائیو میٹرک کے مختلف طریقوں کے ذریعے کالج اساتذہ کو بلیک میل اور ہراساں کرنے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ سپلا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ مختلف شہروں کے کالجوں میں ہاسٹلز کی کوئی سہولت نہیں ہے جب کہ سندھ حکومت کی جانب سے ہاؤس رینٹ کی مد میں دیا جانے والا الاؤنس اتنا کم ہے کہ ایک کمرے کا مکان حاصل کرنا ممکن نہیں. جب کہ بغیر کسی پالیسی، منطق اور میرٹ کے کالج اساتذہ کو دور دراز علاقوں میں تعینات کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے صبح سویرے ایک شہر سے دوسرے شہر تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اب کون انصاف کرے گا کہ حیدرآباد سے روزانہ صبح 8.30 تک ميھڑ پہنچ سکتا ہے، حیدرآباد سے واہی پاندھی، ٹھٹہ، گھوڑا ٻاڑی، بھان سعید آباد یا سکرنڈ پہنچنا ناممکن ہے. ان اساتذہ کو بائیو میٹرک کے ذریعے زبردستی رشوت کا شکار کیا جاتا ہے۔

سپلا نے اس طرح کی بلیک میلنگ اور ہراساں کرنے میں ملوث عناصر کے خلاف کئی بار اعلیٰ حکام سے شکایت بھی کی ہے لیکن چونکہ وہ منظور نظر ہيں انہیں اعلیٰ حکام کی سرپرستی حاصل ہے۔ جس کی وجہ سے بائیو میٹرک کے ذریعے اساتذہ کو ہراساں اور بلیک میل کیا جا رہا ہے۔

ضمیمہ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ کچھ عرصہ قبل ہر کالج میں مخصوص دکاندار کے ذریعے 20 ہزار میں بائیو میٹرک مشینیں لگائی گئی تھیں۔ حال ہی میں ہر کالج کے پرنسپل کو ہراساں کیا گیا اور ایک مخصوص ڈیلر سے آن لائن پھر نئی بائیو میٹرک مشین سرکاری فنڈ سے 70 سے 80 ہزار میں خریدی گئی۔ جو کہ سرکاری پئسے کا ضايہ ہونا ہے۔ حال ہی میں بائیو میٹرک کے ذریعے ہراساں کرنے اور بلیک میل کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

دور دراز علاقوں میں اساتذہ کو ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے ذریعے چیک آؤٹ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جس کی بنیاد پر اساتذہ کو بلیک میل کر کے رشوت طلب کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے سپلا نے بائیو میٹرک کی آڑ میں بلیک میلنگ اور ہراساں کرنے کے خلاف سندھ کے کالجوں میں بائیو میٹرک چیک آؤٹ کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے بائیو میٹرک کی بلیک میلنگ اور رشوت خوری کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ کیونکہ کالج ڈیپارٹمنٹ کے مطابق 5 فیصد ملازمین بھی گھوسٹ نہیں ہیں اور اس پر کروڑوں روپے خرچ کيے گئے جس کی وجہ صرف بائیو میٹرک کے ذریعے اساتذہ کو بلیک میل کرنا اور ان سے رشوت طلب کرنا ہے. سپلا کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ کالجوں کی طرح کالج ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، ڈائریکٹر جنرل کالجز اور تمام ریجنل ڈائریکٹرز کے دفاتر میں بھی بائیو میٹرک مشینیں لگائی جائیں، تاکہ اساتذہ اور ڈائریکٹوریٹ سمیت تمام متعلقہ محکمے کے ملازمين حاضر ہو سکیں۔ اور ان دفاتر میں بائیو میٹرک حاضری یقینی بنائی جائے. اس سلسلے میں اگر محکمہ کے حکام نے مناسب پالیسی نہ بنائی اور بلیک میلنگ یا ہراساں کرنے کا سلسلہ بند نہ کیا گیا تو سندھ بھر کے کالجوں سے بائیو میٹرک حاضری کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے گا۔

سپلا کے پلیٹ فارم سے یہ مطالبہ بھی کیا جاتا ہے کہ پروموشن کے بعد دور درقز علاقوں میں تعینات ہونے والی میل اور خواتین اساتذہ کو زبردستی رليو کرنے کے فیصلے کو بھی مسترد کیا جاتا ہے .ایسا فیصلہ واپس لیا جائے بصورت دیگر سندھ کے اساتذہ بھرپور احتجاج کریں گے۔ سپلا کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ دور دراز علاقوں میں بھیجے گئے اساتذہ کو ان کی رہائش گاہ کے قریب واقع کالجوں میں واپس تعینات کیا جائے، اس سلسلے میں ہر کالج میں کالج اساتذہ اور طلباء کے تناسب کے تحت ایس این اے پر نظرثانی کی جائے تاکہ یہ مسئلہ حل ہو سکے۔

سپلا کی طرف سے یہ بھی گزارش ہے کہ حیدرآباد، قاسم آباد کے علاقوں اور جامشورو میں کالجز کی اشد ضرورت ہے، نئے کالجز کھولے جائیں اور وہاں ایس این اے بڑہائی جائے تاکہ ان جگہوں پر طلباء کو تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یاد رہے کہ جامشورو شہر اور اس کے گردونواح میں کالجز نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ قاسم آباد میں آبادی میں اضافے کے باعث مزید کالجز کی ضرورت ہے، اس کے لیے قاسم آباد بوائز اینڈ گرلز کالجز میں شام کی شفٹ شروع کرکے طلبہ کو تعلیم کی سہولت فراہم کی جاسکتی ہے۔ جس کے لیے سپلا کی جانب سے سیکریٹری کالجز کو تحریری درخواست بھی دی گئی ہے تاہم تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

سپلا کی طرف سے یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ حال ہی میں کالج ڈیپارٹمنٹ نے ملازمین سے پروفارمہ بھرنے کو کہا ہے۔ جس کے ذریعے غیر ضروری معلومات مانگی گئی ہے. کسی دوسرے محکمے میں اس قسم کی حساس معلومات نہی مانگی جاتی۔ جيسا کہ گھر کے افراد کا نمبر سمیت عجیب و غریب اور غیر ضروری معلومات مانگنے کے عمل کے بارے میں خدشات ہیں، اس لیے یہ پروفارما اس وقت تک نہیں پُر کیا جائے گا جب تک خدشات دور نہیں ہوتے۔ ان تمام مسائل کے حل کے لیے ہم سپلا کی طرف سے اس پریس کانفرنس کے ذریعے اعلیٰ حکام سے مطالبات پیش کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ سندھ حکومت اور متعلقہ حکام سپلا کے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے مثبت جواب دیں گے۔ بصورت دیگر احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا


مقبول ترین