جمعہ, ستمبر 13, 2024
صفحہ اولبلاگاسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اسکینڈل

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اسکینڈل

تحریر: وسیم قریشی

چیف سیکیورٹی آفیسر کے موبائل فون میں تقریباً 5500 مختلف لڑکیوں کی نازیبا تصاویر اور ویڈیوز موجود تھیں۔ یہ خبر یقیناً کئی والدین کے لیے فکر و پریشانی کا باعث ہے۔ ان سینکڑوں ویڈیوز میں صرف دو تین لوگ شامل نہیں ہو سکتے یہ باقاعدہ ایک گروہ کا کام ہے جس میں بے شمار سٹاف ممبرز شامل ہیں۔ ایسی ہر خبر پر مجھے اپنا آرٹیکل ” ٹھرکی پروفیسر ، یونیورسٹیاں یا کوٹھے” شدت سے یاد آتا ہے جس نے 2020 میں تقریباً ہر وال پر اپنی جگہ بنائی تھی۔ اس تفصیلی تحریر میں سب کچھ لکھا گیا تھا واضح کیا گیا تھا کہ یونیورسٹی میں کس طرح زیادہ نمبر حاصل کرنے کی دوڑ میں لڑکیاں اپنی عزت لٹا دیتی ہیں اور پروفیسرز بھی بلیک میل کر کے باآسانی اپنی خواہشات پوری کر لیتے ہیں۔ لڑکے لڑکیاں کس طرح "میچوئل انڈرسٹینڈنگ” کے نام پر شادی سے پہلے شادی شدہ زندگی گزارتے ہیں۔۔۔

یہ تو صرف ایک یونیورسٹی کا معاملہ آپ سب کے سامنے آیا ہے اس طرح کے بے شمار معاملات ہر یونیورسٹی میں پائے جاتے ہیں۔ جن پروفیسرز کے ہاتھ میں تمام اختیارات ہیں وہ بادشاہ ہیں وہ جو چاہیں جیسا چاہیں کر سکتے ہیں۔ وہ ” ایف” گریڈ سے اٹھا کر ” اے” یا ” اے پلس” پر پہنچا دیں یا پھر ” اے” گریڈ سے گرا کر آپ کو ” ایف” گریڈ پر پہنچا دیں۔ ان کے لیے یہ سب کچھ ممکن ہے اور آپ اسے چیلنج تک نہیں کر سکتے۔ اگر ایسی غلطی کریں گے بھی تو انکوائری کرنے والے بھی پروفیسرز صاحبان ہی ہوں گے۔ بالآخر نقصان چیلنج کرنے والے کو ہی بھگتنا پڑے گا۔۔۔۔ یونیورسٹی میں کلیکریکل سٹاف ہی فرعون بنا ہوتا ہے پھر پروفیسرز ، سیکیورٹی آفیسرز وغیرہ کا اندازہ تو آپ خود ہی لگا سکتے ہیں۔۔۔ بس سمجھ لیجیے وہ سب ” حاکم” ہیں اور طلباء وطالبات ” محکوم” کا درجہ رکھتے ہیں۔۔۔

یہاں میں ایک بات ضرور کرنا چاہوں گا کہ ان 5500 لڑکیوں کو یہ عقل تو ہونی چاہیے تھی کہ صرف ایک ڈگری ، مضمون یا گریڈ کی خاطر یوں کسی کے تابع ہو جانا اس کی خواہش پوری کر دینا کہاں کی عقلمندی ہے ؟ ایسی ڈگری یا شخص پر دو حرف بھیجنا بھی تو ممکن ہے۔ ایسی ڈگری کو قدموں تلے خود ہی روند کر چلے جانا بھی تو ممکن ہے؟ کیا عزت اتنی سستی ہوتی ہے کہ صرف مارکس کی خاطر اتار دی جائے؟؟؟؟

کئی لوگ اچھی طرح سے جانتے ہوں گے کہ پیپر چیکنگ کے دوران کئی لڑکیاں کس طرح پروفیسر کے سامنے کھڑی ہو کر کھلی ڈھلی گفتگو شروع کر دیتی ہیں ان سے گپ شپ لگاتی ہیں دوپٹے سرکائے جاتے ہیں۔ یہ سب دیکھا اور کئی بار دیکھا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے سب اس بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں البتہ پھر بھی خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ ہاں یہاں ایسی بھی کئی لڑکیاں ہوتی ہیں جن پر پروفیسرز کی ٹھرک ہوتی ہے اور وہ ہر طرح سے اس لڑکی کو ٹریپ کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ ان کے ہاتھ نہیں آتیں وہ مشکلات کا سامنا کرتی ہیں اپنی جنگ لڑتی ہیں مگر اپنی عزت کا جنازہ نہیں نکلنے دیتیں۔ وہ چند پروفیسرز بھی پائے جاتے ہیں جو مختلف ادائیں دکھا کر فیور حاصل کرنے کی کوشش کرنے والی لڑکیوں سے خود کو محفوظ رکھتے ہیں وہ اپنی کرسی ، مرتبے اور مقام کا خیال رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور جہاں تک نشہ آور ادویات کا تعلق ہے تو ایسا کون سا نشہ ہے جو یونیورسٹی میں عام نہیں ہے؟ آپ کو یہ سب معلوم ہو جائے تو آپ کے پیروں تلے زمین نہ رہے گی۔ یونیورسٹی کے کتنے لڑکے لڑکیاں ڈرگز لیتے ہیں اس پر تحقیق شروع کر دیں تو آپ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے۔ یہ سب وہاں بہت آسان ہے بلکہ باقاعدہ آپ کے بچوں بچیوں کو ان کے ہاسٹل کے کمرے تک سپلائی دی جاتی ہے۔ پھر ان میں سے ہی چند کو منتخب کر کے ڈیلرز اپنا نمائندہ بنا لیتے ہیں۔۔ پھر سیکس اور جنسی ادویات ۔۔ بلیک میلنگ ۔۔۔ یہاں سے ہوتے ہوئے جانے کتنی لڑکیاں باقائدہ ” کال گرل” بن جاتی ہیں۔ جائیں معلوم کریں جنسی ادویات ، ڈرگز ، کونڈوم ۔۔ ایسی ہر پروڈکٹ سب سے زیادہ یونیورسٹی کے لوگ خریدتے ہیں ۔اپنے شہروں میں ایسے ڈیلرز کو پکڑ لیں ان سے چھان بین کر لیں تو معلوم ہوگا کہ ان کے پاس صرف کوٹھے کی نہیں بلکہ کالج اور یونیورسٹیوں سے بھی لڑکیوں کی بڑی تعداد موجود ہے ۔ یہ سب ” برانڈز” کے چکر ہیں۔ مہنگے لباس ، آئی فون اور مہنگے ہوٹلوں میں کھانے کا شوق ، مہنگی جگہوں پر پہنچنے کا شوق ۔۔ خواہشات کا جن جب بے قابو ہو جاتا ہے تو پھر یہ غلط راستے کا انتخاب اچھا لگنے لگتا ہے ۔۔ حقائق اتنے تلخ ہیں کہ بہت کچھ ہے جسے لکھنے سے گریز کر رہا ہوں ۔۔۔

کیا کبھی ان مسائل کا حل تلاش کیا جائے گا ؟ کیا یونیورسٹی سسٹم میں اس طرح کی تبدیلیاں کی جائیں گی کہ ہر شخص جواب دے؟ نہیں ۔۔ ہرگز نہیں ۔ کیوں کہ جنہوں نے حساب لینا ہے وہ خود اس میں ملوث ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے لوگوں کے بستر پر ان لڑکیوں کو بھیجا جاتا ہے ۔۔ اگر یہ ممکن نہیں ۔۔۔ تو پھر خود پر توجہ دیں۔ اپنے سٹینڈرڈ اور ویلیوز کا خیال رکھیں۔ ڈگری آپ کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کر سکتی ایسی ڈگری جس کے لیے آپ کو کپڑے اتارنے پڑ جائیں اس پر لعنت بھیج دیا کریں۔ اپنی اخلاقیات بہتر بنائیں۔ بچوں کی بہترین تربیت کریں یونیورسٹی بھیجنے کے بعد بھول مت جایا کریں ان پر نظر رکھا کریں ان کے معاملات سے آگاہ رہنے کی کوشش کیا کریں۔۔ اپنے بیٹے بیٹیوں کو بتائیں کہ "عزت” کتنی قیمتی ہوتی ہے اور دنیاوی چیزوں کے لیے اپنے معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ اپنا معیار بنائیں آپ ماحول کے زیرِ سایہ چلیں گے تو بکھر جائیں گے آپ کو اپنی ویلیوز کے مطابق چلنے کی ضرورت ہے تاکہ اس ماحول میں خود کو بچا سکیں۔ بس یہی ہے جو اس وقت ہم کر سکتے ہیں۔۔۔
سلامت رہیں ۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ سب کی عزتوں کو محفوظ رکھے آمین ۔۔۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں

مقبول ترین