کراچی : وفاقی اردو یونیورسٹی میں بدانتظامی کے داستانوں کے بعد اب کرپشن کی اطلاعات بھی منظرعام پر آ رہی ہیں ۔ موجودہ قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کے دور میں سینئر و تجربہ کار افسران کے ذاتی رنجشوں کے باعث تبادلے کرنے سے انتظامیہ ان معاملات کو حل کرنے میں بے بس نظر آتی ہے ۔
اردو یونیورسٹی میں ایک ملازم تنویر احمد، چوکیدار کے جعلی شناختی کارڈ پر بھرتی ہونے اور اسی شناختی کارڈ پر ریٹائر ہونے کے باوجود اب تک ملازمت کرنے اور تنخواہ و دیگر مراعات وصول کرنے کی خبر شائع کی گئی ۔ اس خبر میں تنویر حسین کا اصل شناختی کارڈ بھی شائع کیا گیا جس کے مطابق موصوف نہ صرف 47 سال کی زائد العمر میں مستقل ہوئے بلکہ 2021ء سے ریٹائر ہونے کے باوجود اپنے اثر و رسوخ کے باعث اب تک ملازمت پر برقرار ہیں۔
موجودہ قائم مقام انتظامیہ نے پہلے دن سے سینئر و تجربہ کار افسران کو ذاتی رنجشوں اور پسند نا پسند کی بنیاد پر اہم عہدوں سے ہٹا کر ناتجربہ کار ملازمین کو نوازنا شروع کیا ، جس کے باعث یونیورسٹی مالی کے ساتھ ساتھ انتظامی بدحالی کا بھی شکار دکھائی دیتی ہے ۔ ایسا ہی ایک اور واقعہ منظر عام پر آیا ہے ۔
سابقہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر عطاء کے دور میں جب صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے یونیورسٹی کا دورہ کیا تو ان کے لیے ایک تقریب کے لیے اخراجات کی مد میں ایڈوانس رقم حاصل کی گئی۔ اس رقم کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے جمع کروائے گئے جعلی بل منظرعام پر آئے ہیں جن پر اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔
اطلاعات کے مطابق اسسٹنٹ رجسٹرار سید دانش علی جو یونیورسٹی میں مالی معاملات میں بری شہرت کے حامل ہیں ، انہوں نے 3 بل ایسے جمع کروائے ہیں جن کے مطابق انہوں نے ڈسٹمبر، آئل پینٹ، جھاڑو اور فنائل وغیرہ جیسے دوسرا صفائی کا سامان خریدا اور اس کے عوض انہوں نے اردو یونیورسٹی میں ہی قائم وارثی کینٹین کی مہرلگے بل جمع کروائے اور خود اپنے دستخط سے ان بلوں کی تصدیق بھی کی ۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان بلوں میں درج سامان وارثی کینٹین میں دستیاب ہی نہیں ۔ یہ تینوں بل کل 19880/- روپے کے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان بلوں کے سامنے آنے کے باوجود قائم مقام وائس چانسلر مصلحتاً اس پر مزید کوئی کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔
اس سے قبل بھی جب سید دانش علی کیمپس آفیسر کے عہدہ پر تعینات تھے تو 10 KVAکا ایک جنریٹر یونیورسٹی سے غائب ہونے کا انکشاف اخبارات کی زینت بنا جس پر اس وقت کی انتظامیہ نے ایک انکوائری کمیٹی تو تشکیل دی لیکن آج تک نہ ہی جنریٹر برآمد ہوا نہ ہی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے پر سید دانش علی کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔