دست قضا اج پھر ایک اور پھول چمن سے اڑا کر لے گئی۔شاہد حسین کراچی پریس کلب کے چمن کا ایک خوشنما پھول تھا اس کے دم سے محفلوں کی رونق بڑھ جاتی تھی شاہد حسن اپنے بڑے سے بیگ کے ساتھ کسی بھی سمت سے نمودار ہوتے اور بے تکلفی سے اپنی باتیں کرنا شروع کر دیتے۔
ڈاکٹر ہارون نے جب مجھے بتایا کہ یہ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے فیض صاحب سے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شروع ہو جاتے تو پھر واقعات کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا۔ بہت سے واقعات اور قصے انھوں نے اپنی یاداشتوں میں بیان کئے ہیں۔ شاہد حسن خوبصورت انگریزی لکھنے والے صحافی تھے وہ پاکستان کے معروف اخبارات میں اسٹوری لکھتے تھے اور ان کی اسٹوریاں بڑی اہم ہوتی تھیں ۔ انٹرویو کے ماہر، معاشیات معاشرتی مسائل،اور دیگر مضوعات پر وہ بہت سے لوگوں سے ملاقات کرتے ان سے چیزوں کی تفصیلات اور جزیات معلوم کرتے اقتصادیات سماجیات معاشرتی مسائل شاہد حسن کے محبوب موضوع تھے شاہدحسن کراچی یونیورسٹی کی بائیں بازو کی سیاست میں بھی ایک بڑا اہم نام تھا ۔شاید حسن اس وقت کے ترقی پسند حلقے میں فیض صاحب سے لے کر اور بہت سارے ترقی پسند دانشور صحافیوں اور شاعروں سے واقفیت رکھتے تھے۔
ان کی قصے انہیں زبانی یاد تھے۔ وہ روس کے قونصل خانے کے انفارمیشن سیل میں کام کر چکے تھے۔وہ جس محفل میں بھی بیٹھ جاتے تھے پھلجھڑیاں چھوڑتے تھے۔ وہ کام کے دھنی تھے۔ 2013 میں ان کی یاد داشتوں پر مبنی پہلی کتاب خواب لے لو خواب شائع ہوئی۔ ان کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انھوں نے انگریزی کے تمام بڑے اخباروں میں کام کیا۔،، سالے لکھوالیتے ہیں۔ چھاپتے بھی ہیں۔ لیکن پیسے نہیں دیتے،، شاہد حسن یہ کہہ کر معصومیت سے میری طرف دیکھتے۔ پھر کہتے اب ہم کیا کریں لکھنا ہی ہمارا مقدر ہے۔ ان کےبائیں بازو روسی سفارت خانہ اور لکھنے اور اظہار کے بے باک انداز کو ریاستی اداروں نے کبھی معاف نہیں کیا۔
بد ترین تشدد نے انھیں دماغی مرض میں مبتلا کردیا۔ پچھلے مہینے ملاقات میں بتایا کہ وہ اپنی چوتھی کتاب موجودگی نسل انسانی بحیثیت نوع بشر یا نوع حیوانی لکھ رہے ہیں۔ انگریزی کتاب کے 100 صفحے لکھ لیے ہیں۔ ان کے صحافی دوست پاول نے اس کا دیباچہ بھی لکھ دیا ہے۔ ۔ ڈاکٹر توصیف احمد خان اور ان کا حلقہ ایک اچھے صحافی دوست اور مہربان دوست سے محروم ہو گیا۔ چند دن قبل میں نے شاہدحسن کے بارے میں ڈاکٹر توصیف سے پوچھا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ کسی وقت بھی بیگ اٹھائے ا جائیں گے اور محفل کی رونقیں پھر سے وہی ہوگی لیکن اب شاہد حسن اپنے بیگ سمیت ایک انجانی منزل کی طرف چلے گئے۔ اب کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ 20 گھنٹے پہلے میں نے فیس بک پر ان کی وال پر شاہد حسن کو ان کی سالگرہ کی مبارک باد دی تھی۔ اب میں ان کا مرگ نامہ لکھ رہا ہوں۔ دنیا فانی ہے۔ ہر چیز اپنے رب کی طرف جانی ہے۔ اے انسان تجھے کس چیز نے غافل کر دیا۔ اللہ شاہد حسین کی مغفرت فرمائے۔