تحریر : فارینہ حیدر
میں نے جامعہ کراچی کے شعبہ ریاضی سے ایم ایس سی اور ایم فل کیا ہے میری فیلڈ پیور میتھ میٹھیکس ہے۔ جبکہ بی ایس سی میں میرے پاس میتھس کے علاوہ فزکس کیمسڑی بھی تھا ۔ میں شعبہ ریاضی چنا ہی اس لیے تھا کیونکہ مجھے الجبراء میں پی ایچ ڈی کرنا تھا۔ ہر بچے کے کچھ خواب ہوتے ہیں کہ یہ کرنا یہ پڑھنا۔ پڑھائی میں اچھی تھی اس لیے میڑک بھی جلدی ہو گیا اور ایم ایس سی بھی جلدی ہو گیا، ایم ایس سی کا رزلٹ بھی نہیں آیا تھا ایم فل کے لیے شعبے میں ٹیسٹ دیا پھر اس میں بھی ایڈمیشن ہو گیا جامعہ کراچی میں 2010 میں کو پرائیویٹ استاد جو اب ریسرچ اسسٹنٹ اور ایسوسیٹ ہوتا ہے بھرتی ہوئی اسوقت میں ایم فل کی طالب علم تھی ۔
عارف کمال ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر تھے لیکن ان کی تمام ڈگریاں ایم ایس سی سے لیکر post doctorate تک سب فزکس کی ہے لیکن یہ صاحب 20 سال سے شعبہ ریاضی میں بطور استاد پڑھا رہے تھے کاغذوں میں لیکن افسوس کے ساتھ انھوں نے کبھی ریاضی پڑھائی ہی نہیں کیونکہ آتی ہی نہیں تھی ۔ شعبہ میں کاغذی کام کرتے تھے اور سیٹ گھیر کر بیٹھے ہوئے تھے ۔
جب 2012 میں جامعہ کراچی میں سلیکشن بورڈز شروع ہوئے تو جامعہ کے وائس چانسلر پیرزادہ قاسم تھے جو اس وقت سلکشن بورڈ کرانے کے حق میں نہیں تھے کیونکہ حالات خراب تھے اور اندازہ تھا کہ دباؤ آئے گا ۔ اس وقت بھی جامعہ کراچی میں کوپریٹو کی کی کثیر تعداد جو کئی سالوں سے سلیکشن بورڈ کا انتظار کر رہے تھے لیکن وائس چانسلر منہ بند کر کے بیٹھے تھے ۔ پھر ہماری چئیرمین خاتون اور دوسرے ہیڈ نے دباؤ ڈالا سلیکشن بورڈ کے لیے جس کے نتیجے میں وی سی صاحب فارغ ہو گئے اور نئے وی سی نے پھر بورڈ کرایا کیوں کہ وہ انہیں اساتزہ لائے ہی اسی لیے تھے ۔؎
پھر جس دن ٹیسٹ ہوا میرے والد نے کہا مجھے بات کرنے دو میرے دوست ہیں ۔ ایم این اے کال کرے گا تو کام ہو جائے گا ورنہ نہیں ہو گا لیکن میں نے کہا ابو ہو جائے گا ، سب تو صحیح چل رہا ، ٹینشن لینے کی کیا ضرورت ہے ۔ جب ٹیسٹ کی لسٹ آنی تھی میں جامعہ میں تھی ۔ کیونکہ اسی دن ٹیسٹ اور انٹرویو ہوتا تھا ۔ جو ٹیسٹ میں کلئیر ہوتا تھا ، فوراً ہی انٹرویو ہو جاتا تھا ۔ اس دن لسٹ میں 3 بار ٹیمپرنگ ہوئی ہمیں پتا گیا ۔ اس میں سے میرا نام باقاعدہ نکالا گیا ۔ جب کہ میں باہر کی بھی نہیں تھی ۔ وہی کام کر رہی تھی ۔ وہی سے میری بد نصیبی شروع ہوئی اور عارف کمال کی خوش نصیبی ۔ اس سلیکشن بورڈ کے دو مہینے بعد ہی میرے والد کی ٹارگٹ کلنگ ہو گئی اور پھر جو عارف کمال نے مجھ سے دشمنی شروع کی تو اس آدمی نے مجھے کہیں کامیاب ہی نہیں ہونے دیا ۔ جو اس آدمی نے 2015 میں رپورٹ آفیشلی لکھی ۔ یہی رپورٹ وہ 2012 سے میرے لیے لکھ کر دے رہا تھا ۔ مجھے ایڈمنسٹریشن بلاتی دوبارہ جوائن کرانے کے لئے یہ آدمی میرے پیچھے سب کو لگا دیتا ۔ فیلیر ہے، خراب ہے، شکل دکھانے آتی ہے، کبھی کہتا شادی شدہ ہے دو بچے ہیں چھپاتی ہے، مطلب وہ جو کچھ کہہ سکتا تھا کہتا گیا ، جب میں وی سی کو بتاتی کہ بہت مسئلے کھڑے کر رہا ہے ، بدنام کر رہا ہے تو پھر اس کو وی سی معطل کرتے ، پھر وہی کتے کی دم ۔
خیر وی سی نے 2016 تک کام چلا دیا ۔ لیکن اس بیچ میں یہ آدمی صرف شعبہ کا ہیڈ ہی نہیں بنا بلکہ یہ ڈین بھی بنا اور وی سی کے جانے کے بعد کچھ عرصے کے لیے وی سی بھی لگا ، جب کہ اس نے relevant degree نہ ہونے کے باوجود شعبہ میں 20 سال گزارے اور آج بھی پینشن اسی شعبے سے لے رہا ہے ۔
2015 میں اس نے جو رپورٹ لکھی اس کے مطابق میں دونوں ٹیسٹوں میں فیل تھی جبکہ میں نے اپنی رپورٹ نکلوالی تھی کہ میرا ٹیسٹ کلئیر تھا ، اس کے بعد میں نے این ٹی ایس بھی دیا کیونکہ یہ کہا گیا کہ اپنا این ٹی ایسٹ کلیئر کر کے جمع کرا دیں تو بھی مستقل کر دیں گے ۔ میں نے وہ بھی جامعہ میں جمع کرایا کہ ابجیکشن ختم ہو لیکن یہ آدمی میرے اوپر الزامات نہیں ہٹنے دے رہا تھا ۔ اس کے بعد انور زیدی آیا ، اس نے بھی اس کی رپورٹ کو چلایا اور اب نجیب عالم 5 سال سے ہیڈ ہے ۔ اس کا پی ایچ ڈی 16 سال کے بعد ہوا اور پی ایچ ڈی کے فورا بعد یعنی 2 سالوں میں اس کے 100 سے 125 پیپر پبلش ہو گئے ۔ یہ آدمی جامعہ کراچی کے ساتھ ساتھ کالج ایجوکیشن میں بھی لیکچرار تھا اور 20 سال سے وہاں سے بھی تنخواہ لے رہا تھا جو 2 سال پہلے میں نے ہی ختم کرائی اور اس کے ساتھ عنایت اللہ بھی تھا وہ شعبے میں استاد ہے ۔
اب ایک مسئلہ تو مستقل کرنے کا تھا لیکن جو اصل مسئلہ تھا وہ کام کرنے دینے کا مسئلہ تھا ۔ کیا پاکستان میں کنٹریکٹ ملازمین 25، 25 سال سے کام نہیں کر رہے ؟۔ کیا ایک یا دوبار ٹیسٹ میں فیل ہو جانے سے آپ کمانے کا حق چھین لیتے ہیں ؟ اور اس آدمی یا خاتون کو سروس سے بلیک لسٹ کروا دیتے ہیں ؟ نہیں ایسا کسی کے ساتھ نہیں ہوتا ؟ پورے پاکستان میں میرا ہی کیس ہے کہ میں ایک ایسے آدمی کی رپورٹ پر نااہل ہوئی ہوں ۔ جس نے ساری زندگی حرام کا کرپشن کا پیسہ کھایا ہے اس رپورٹ کو جامعہ کراچی میں پولیس، محتسب اعلیٰ سندہ اور اب ہائی کورٹ تک میں چیلیچ کر چکی ہوں ۔ اس کی رپورٹ مسترد ہوتی ہے ۔ اداروں سے لیکن کیوں کہ مجھے یہ اور اس کا ٹولا دوبارہ جوائننگ نہیں لینے دے رہا ہے تو کچھ دن کے بعد ہی یہ لوگ اسی رپورٹ کو دوبارہ چلانا شروع کر دیتے ہیں اور پھر جو معاملہ میں ختم کرتی ہوں وہ شعبے ریاضی سے میرے لیے دوبارہ پھر شروع ہو جاتا ہے ۔ انھوں نے میری یتیمی اور غیر شادی شدہ ہونے پر اتنا ظلم کیا ہے جو شاید ہی کسی پر ہوا ہوں ۔
اس عارف کمال کی بھی بڑی ساری داڑھی ہے اور ہر وقت اپنے چلوں کا اور اللہ رسول کے احکامات سناتا ہے ۔ میں 2017 سے سروس سے بلیک لسٹ ہوں ۔ اس رپورٹ وی سی خلد عراقی کے پاس کئی بار جا چکی ہوں کہ میری رپورٹ کلیئر کریں ۔ میری جوائنگ کرائیے ، آپ کے سارے لوگ پکڑے گئے ہیں ۔ عارف کمال سے لیکر نجیب، عنایت، فوزیہ، ثاقب سب دو اور 3 نوکریاں کر رہے تھے ۔ سرکاری نوکری کے ساتھ ۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی وی سی میرا کام نہیں کر رہا ہے اور مجھے پھرا رہا ہے ۔
ایم فل کا وظیفہ 15000 ہے ۔ مجھے 7 سال سے وہ بھی نہیں مل رہا ہے ۔ اس رپورٹ کو لکھنے اور لگانے کا مقصد یہی ہے کہ جو مجھ پر ظلم ہو رہا ہے اور کوئی شنوائی نہیں ہو رہی اس کی شنوائی ہو ۔ میں اب اس بلیک لسٹنگ سے بیزار ہوں ۔ بہت کھیل ہو گیا ۔ میری جوائنگ دیں ورنہ عارف کمال انور زیدی، نجیب کو کرپشن چارجز اور جھوٹی رپورٹ سرکاری سطح پر لکھنے پر جیل بھیجیں ۔
افسوس صد افسوس