تحریر : ڈاکٹر جہاں آراء لطفی
وائس چانسلر جامعہ کراچی مسجد کمیٹی ، اور امام و مؤذن جامع ( مسجد ابراہیم ) برائے کرم فوری نوٹس لیں ۔ جامعہ کراچی کی مسجد ابراہیم میں خواتین کے پورشن میں ساؤنڈ سسٹم کئی سالوں سے خراب ہے ۔ مسجد ابراہیم کی انتظامیہ کو مسلسل یاد دھانی اور توجہ دلائی جاتی ہے ۔جس سے کبھی کبھار ٹھیک ہو جاتا ہے لیکن اکثر بند رہتا ہے یا جان بوجھ کر رکھا جاتا ہے ۔
توجہ فرمائیں اسپیکرز ، جو مصلی برائے خواتین میں لگے ہوئے ہیں بہت قدیم اور ناقص ہیں ۔۔اکثر چلتے چلتے رک جاتے ہیں یا وائیبیرشن ہوتی ہے یا بالکل ہی بند ہوجاتے ہیں ۔ یہاں اکثر تیس پینتیس سے زائد خواتین نماز ادا کرتی ہیں جن میں طالبات کے ساتھ ساتھ جامعہ کے تدریسی و غیر تدریسی (ٹیچنگ و نان ٹیچنگ) عملے کے علاوہ کیمپس میں رہائش پذیر ملازمین اساتذہ و افسران کے گھر کی خواتین بھی آتی ہیں ۔
آج باوجود اس کے کہ امتحانات کا زمانہ ہے تصویر میں تعداد ملاحظہ ہو ۔ ان نمازیوں میں ہر مسلک سے تعلق رکھنے والی ہیں ۔ جن کی یہاں شرکت کا مقصد محض خطبہ سننے اور نماز کی باجماعت ادائیگی ہوتا ہے ۔ یہ سب کی سب اس ساونڈ سسٹم کی خرابی نیز واش رومز اور وضو خانے کی ناقص صفائی سے بہت نالاں ہیں اور شکایت کنندہ ہیں ۔ اس لیے خدارا اس پر توجہ دیں ۔
یہاں کا ساؤنڈ سسٹم نیا لگایا جائے ۔ جسے ہر جمعہ کی صبح چیک کیا جائے ۔ مسجد انتظامیہ خواتین کے پورشن میں موجود وضو خانہ واش رومز اور پینے کے پانی کی صفائی و طہارت کا ہر ہفتے جائزہ ضرور لیں ۔ اسے اسٹور روم کی شکل دیدی گئی ہے جہاں جھاڑو پوچھے جھاڑنیں پڑی ہوتی ہیں اکثر صفائی کرنے والوں کے میلے کپڑے بھی لٹکے ہوتے ہیں ۔
خواتین کی مسجد کا دروازہ اور باھر نکلنے کا رستہ بالکل الگ رکھا گیا ہے ۔۔ لیکن اس کی سیڑھیوں پر اور اس کے سامنے مرد حضرات ایک دوسرے کا انتظار کرنے کے لیے اکھٹے ہو جاتے ہیں اور وہیں بیٹھ کر جوتے پہنتے ہیں ۔ جبکہ ان کی لیے نہ صرف الگ سیڑھیاں ہیں بلکہ بنچیں بھی لگی ہوئی ہیں ۔ وہاں ایک نمایاں بورڈ لگایا جائے جس سے معلوم ہو جائے کہ یہ خواتین کا مصلی ہے۔ امید ہے اس کا نوٹس لیا جائے گا ۔ اور خواتین کے لیے مساجد کے دروازوں و راستوں میں رکاوٹ کو دور کیا جائے گا۔
نوٹ : اس معاملے میں لکیر کے فقیر پوسٹ سے دور رہیں ۔ یعنی خواتین کو مساجد سے دور رکھ کر فتنہ پروری کرنے والے حضرات معاملے سے دور رہیں
یہ سب ٹھیک ہے۔ اگر ریٹائرڈ اساتذہ نوٹس کی مدت پورا ہونے پر جامعہ کراچی کی رہائشی چھوڑ دیں تو قطار میں لگے ہوئے دیگر اساتذہ بھی اس ہوشربا مہنگائی میں ان کو دعائیں دینگے اور جامعہ کراچی کا مالی بحران بھی کم ہوگا۔