کراچی: پِنک ربن کیمپین کے تحت سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ بائیو میڈیکل انجینئرنگ کے زیرِ اہتمام دارلصحت کے تعاون سے چھاتی کے کینسر سے آگاہی کے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں دارلصحت کی ماہرین طِب ڈاکٹر تابندہ سحرش اور ڈاکٹر سدرہ علیم نے فکر انگیز معلومات فراہم کیں۔پروگرام میں شرکت کرنے والوں میں سرسید یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی اہلیہ محترمہ منیرہ ولی،پروفیسر ڈاکٹر محمد عامر،پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف، اسداللہ چودھری، فضل نور، پروفیسر ڈاکٹر ولیج حیدر، پروفیسر ڈاکٹر لبنیٰ فرحی، ثانیہ تنویر، ڈاکٹر اسماء، پروفیسرڈاکٹر رابعہ نور انعام، فوزیہ آصف سمیت خواتین کی کثیر تعداد شامل تھے۔اس موقع پراُن خواتین نے اپنے تجربات شیئر کئے جو زندگی میں کبھی اس موزی بیماری کا شکار ہوچکی تھیں۔
اس موقع پر ماہرینِ طب کا کہنا تھا کہ خواتین کو شرم اور سماجی خوف سے خاموش نہیں رہنا چاہئے بلکہ اپنے مرض کے علاج کے لیے ڈاکٹر سے فوراََ رجوع کرنا چاہئے کیونکہ ابتدائی مرحلے پر اس کا علاج ممکن ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر10میں سے ایک خاتون کو چھاتی کا کینسر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔پاکستان میں ایک کروڑسے زائد خواتین کو کینسر ہونے کا خدشہ لاحق ہے۔پاکستان میں ہر سال چھاتی کے کینسر کے 90ہزار نئے مریض سامنے آتے ہیں اور یہ شرح پورے ایشیاء میں سب سے زیادہ ہے۔چھاتی کے کینسر سے ڈرنا نہیں، لڑنا چاہئے۔ایک عورت ایک خاندان کی پرورش کرتی ہے۔۔اور ایک صحتمند عورت ہی صحتمند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔
قبل ازیں پنک ربن کی فوکل پرسن اورشعبہ بائیومیڈیکل انجینئرنگ کی چیئر پرسن ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سدرہ عابد سید نے خیرمقدمی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا عزم ہے کہ چھاتی کے کینسر کی روک تھام اور علاج کے لیے وسیع پیمانے پر آگاہی کی تحریکوں کو فروغ دیں اور ایسے مریضوں کی علاج تک رسائی میں سہولتیں فراہم کریں تاکہ مرض کا پیشگی، بروقت پتہ لگایا جا سکے اور اسے مطلوبہ طبی امداد مل سکے۔
اظہارِ تشکر پیش کرتے ہوئے سرسید یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ولی الدین نے کہا کہ چھاتی کا کینسر ایسا مرض ہے جس کی جلد تشخیص کی جاسکتی ہے کیونکہ اس کی علامات بیرونی جسم پر ظاہر ہوتی ہیں۔بریسٹ کینسر کی جلد تشخیص سے مریض کی جان بچنے کے امکانات90 فیصدتک بڑھ جاتے ہیں۔بروقت علاج اور تشخیص سے ہزاروں زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔یہ بات بھی بڑی خوش آئند ہے کہ جدید ٹیکنالوجی بھی امراض کے بچاؤ کے لیے مفید ثابت ہورہی ہیں جیسے مصنوعی ذہانت Artificial Intelligence کے ذریعے چھاتی کے کینسر کے خطرے کی جلد تشخیص اور پیش گوئی ممکن ہے۔پاکستان میں اس مرض کے پھیلاؤ کی بنیادی وجہ آگاہی کا فقدان ہے جو چھاتی کے کینسر کا پتہ لگانے میں تاخیرکا سبب بنتا ہے اور بیشتر خواتین مرض کے آخری مرحلے پر ڈاکٹروں سے رجوع کرتی ہیں۔
پروفیسرڈاکٹر ولی الدین نے منظم اور عمدہ پروگرام منعقد کرنے پر ڈاکٹر سدرہ عابد کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے پروگراموں کے انعقاد سے خواتین میں بیداری پیداہوگی اور وہ بیماری سے بچاؤ اور حفاظت کے لیے بروقت قدم اٹھاسکیں گی۔انھوں نے ڈاکٹر سدرہ کی کوششوں کی وجہ سے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور پِنک ربن کی جانب سے تعریفی سند ملنے پر خوشی کا اظہار کیا۔