تحریر : فارینہ حیدر
میں فارینہ حیدر ہوں ، میں جامعہ کراچی میں کنٹریکٹ پر استاد تھی ، عارف کمال اور انور زیدی نے مجھے ریگولر نہیں ہونے دیا ، جب میں نے جامعہ کراچی میں رجسٹرار کو شکایت کی تو ان دونوں نے مجھے سروس سے بلیک لسٹ کر دیا ۔ ان کے ساتھ خالد عراقی جو گزشتہ تقریبا پانچ برس سے جامعہ کراچی کے وی سی ہیں ، وہ بھی شامل ہیں، خالد عراقی نے متحدہ لندن کو ملوث کر کے مجھے بلیک لسٹ کیا ہوا ہے ۔ اس کے ساتھ النور ڈگری کا اسٹاف جس میں نسرین شوکت، زوبیہ باسط ، شازیہ خانم ، اختر سمیت سب ملوث ہیں ، کالج میں 8 کوآپریٹو بھی خالد عراقی کے گروپ نے ریگولر کرائی ہیں ۔
یہ جہاں چاہتے ہیں وہاں اپنے بندے بندیاں permanent کراتے ہیں ۔ جس میں صائمہ نورین جو میرے بیچ کی ہے وہ بھی شامل ہے ۔ اس کے ساتھ فرحانہ بتول اور چھ خواتین شامل ہیں ۔یہ 2018 سے ریگولر ہیں ۔ میرے ڈیپارٹمنٹ کا نجیب اور عنایت آج بھی گریڈ 17 پر کالج میں بھی نوکری کر رہے ہیں ۔ یعنی دو سرکاری نوکریاں کر رہے ہیں ۔ نجیب میرے شعبے کا 5 سال سے ہیڈ ہے ۔ جب کہ خالد عراقی متحدہ لندن کا ہے اور لوگ اس سے کہہ رہے ہیں کہ اس کو بلیک لسٹنگ سے نکالو ، اسے جوائنگ دو تو میرا مسئلہ حل کرنے کے بجائے نیا بورڈ کرا رہا ہے ۔
مجھ پر خالد عراقی ظلم کر رہا ہے اور جنھوں نے مجھے بلیک لسٹ کیا ہوا ہے ۔ان لوگوں کو اس نے 7 سال سے رہنے کی اجازت دی ہوئی ہے ۔ جب کہ 8 سال سے دونوں بوڑھے ریٹائرڈ ہیں ، اس نے میرا مسئلہ رکھ کر جامعہ کراچی کو متحدہ لندن کا سیکٹر بنا دیا ہے ۔ مجھے ایم فل کا الاؤنس بھی نہیں مل رہا ، جو کہ 15000 ہے ۔ اس بات کو بھی 7 سال ہو گئے ہیں ۔ اس سے پہلے کہ خالد عراقی مزید بندے بھر کر جامعہ میں گندگی پھیلائے ، اسے جامعہ سے باہر نکالا جائے ، یہ بھی اب ریٹائرڈ ہو گیا ہے ، اس کی عمر اس وقت 65 سال ہے ۔
خالد عراقی کون ہے؟
خالد عراقی نے دو ماسٹرز کیے ہیں ، پہلا ماسٹر پولیٹیکل سائنس میں کیا ۔ لیکن نہیں چل سکا ۔ جامعہ میں اس کی نوکری ہوئی نہ ہی کہیں اور سرکاری نوکری ہوئی ۔ اس لیے اس نے پھر ماسٹرز کیا ، اس بار انتخاب بزنس ایڈمنسٹریشن تھا ۔ یہ شعبہ خالد عراقی کو راس آ گیا اور اس کے کچھ عرصے کے اسی شعبے میں اس کو لیکچرار کر دیا گیا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے ماسٹرز پر اس کی نوکری کہیں کیوں نہیں ہوئی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عراقی زمانہ طالب علمی سے جیالا تھا اور وہ بھی مار دھاڑ والا ۔ جس وقت عراقی طالب علم تھا ، وہ وقت پاکستان کی سیاست میں مار دھاڑ کا وقت یعنی 80 کی دہائی ۔ اس وقت جیالے نہ ایم کیو ایم کو برداشت کرتے تھے اور نہ ہی جماعت اسلامی اور نہ یہ جماعتیں ان کو پسند کرتی تھی ۔ اب ایم کیو ایم دو حصوں میں آ چکی ہے ۔ اس لیے ایک گروپ ان کی جان ہے ۔خالد عراقی اب اسی کالعدم گروپ کے لیے کام کرتا ہے لیکن دوسرا گروپ قدرے سیاسی ہے اور ان کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتا ہے تو اسی لیے اب آدھی متحدہ سے یہ لوگ شدید نفرت کرتے ہیں ۔
80 کی دہائی میں عراقی صاحب ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے سیاسی کارکنوں کی پٹائی لگانےدوسری جامعات میں اور میڈیکل کالجز میں جاتے تھے اس وقت یہ فری سروس ہوتی تھی جس کا پھل آج تک کھایا جارہا ہے ۔ جنھوں نے عراقی صاحب کی مار دھاڑ اور غنڈہ گردی دیکھی ہے وہ خود اس کا حال سناتے ہیں. عراقی کی غنڈہ گردی دیکھ کر اس کے شعبے نے اسے بلیک لسٹ کیا تھا اور اس کی اینڑی بند کی تھی جیسے عارف کمال کو اس کے فزکس کے شعبے نے بلیک لسٹ کیا ہوا تھا اور اسے کبھی وہاں پر جوائنگ نہیں دی ۔
خالد عراقی تیز آدمی تھا اور سیاست جانتا تھا اس لیے عارف کمال کی طرح رستہ بدل کر پھر جامعہ میں داخل ہو گیا ۔ اس کے بعد سرکاری ملازمت میں بھی آ گیا اور وہی سے ترقی کرتا گیا ۔ اب آپ سب سمجھ رہے ہونگے یہ پی ایچ ڈی ہے تو بہت توپ ہو گا ۔ نہیں جناب ۔ ایسا نہیں ہے ، جامعات میں صرف قابل لوگ نہیں چلتے تعلقات والے لوگ زیادہ چلتے ہیں اگر آپ کسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور اس جماعت کے سیاہ و سفید کے حامی ہے تو پھر آپ کو ترقی کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا یہی لوگ پھر آپ کی ڈگریاں اور گریڈ کے زمہ دارہوتے ہیں . یہ سیاسی لوگ ان کے پاس اپنے بندے بھیجتے ہیں جو قابل ہوتے کہ تم ہمارے بندے کو آگے بڑھاو ہم تمھیں اگے بڑھائے گے یہ ایک خاموش معاہدہ ہوتا ہے یہی پاکستان کا نظام ہے ۔
واپس موڑ لیتے ہیں اپنے موضوع پر یعنی خالد عراقی، تو جناب جیسے سب 2011 کے بعد کراچی کے خراب حالات سے فائدہ اٹھایا ویسے ہی عراقی نے بھی فائدہ اٹھایا اور جو آدمی مبینہ طور پر crpc cases میں ملوث تھا اس نے یونیورسٹی کی سیکورٹی اپنے زمہ لی کہ جامعہ کی حفاظت میری زمہ داری ہے اور خدا گواہ ہے اس نے ہر اس شخص کی حفاظت کی جو اس کے جیسا تھا. نہ ان لوگوں ریٹائر ہونے کے بعد یونیورسٹی کے گھروں سے نکالا اور نہ نوکریوں سے، اس وقت جامعہ کراچی میں 61 ریٹائرڈ بوڑھے رہ رہے ہیں یعنی ایک پاورفل گروپ بنا کر بیٹھا ہے. شعبہ جات کے کمرے ان کو واپس ملے، ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ جوائنگ ملی یعنی ان کی زندگی کا بھرپور سامان کر کے بیٹھا ہے کہ نہ وہ بوڑھے سو سال تک مرے گے نہ وہ جامعہ سے جائے گے ۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ خالد عراقی دو جماعتوں کا بوجھ لے کر چل رہا ہے. یہ ایک نظام کا صرف نمائندہ نہیں ہے بلکہ اس کو چلانے والا کارندہ ہے. میرا کیس ایک ٹیسٹ کیس ہے کیونکہ اگر میرے معاملہ حل ہوتا ہے تو جو میرے جیسے کنٹریکٹ ملازمین ہے جن سے سالوں سے غلامی کرائی جارہی ہے، ان کا مسئلہ حل ہوجائے گا کیونکہ میرا جتنا کام کسی نے نہیں کیا ۔
پاکستان میں جو ٹیسٹ انٹرویو کا ڈرامہ رچایا گیا ہے وہ میری تحقیق کے مطابق صرف لسانیت اور زاتی پسند ناپسند پر کیا گیا ہے. سب سے بڑا مقصد عورتوں پر ہاتھ صاف کرنا ہے کیونکہ جب عورت ہاتھ آئے گی تو گھر خود بخود ہاتھ آئے گا ۔
میں جمیل جالبی کی مرتب کی ہوئی یونیورسٹی کی کوڈ بک پوری پڑھ چکی ہوں اس کتاب کے بعد کوئی کوڈ بک نہیں آئی اس کے صفحہ نمبر 405 میں صاف لکھا ہے کہ جو کنٹریکٹ ملازم 6 ماہ کام کرچکا ہے اور اس پر کوئی کنڈکٹ کا الزام بھی نہیں ہے تو اسے اس کی پوزیشن پر کنفرم یا ریگولر کردیا جائے اسی طرح اقبال حسین ایکٹ 2011 جو کہ اب ہائی کورٹ کی کتاب کا حصہ ہے اس میں صاف لکھا ہےکہ جو کنٹریکٹ ملازم ہے اسے اسی گریڈ پر کنفرم کیا جائے جس پر وہ کنٹریکٹ یا ایڈہاک ملازم ہے جبکہ پاکستان میں 25، 25 سال سے لوگ عارضی ملازمت کر رہے ہیں اور ریگولر ہونے کے لالچ میں بار بار اپلائی کرتے ہیں. ان کو خود سوچنا چاہیے جب آپ کے ساتھ شروع کے سالوں میں ہی ظلم کیا ہے تو وہ آگے آپ کے ساتھ کیسے انصاف کریں گے اس کابہترین حل قانون سے واقفیت اورظلم کے خلاف جہاد ہے بھٹو صاحب کے دور میں بھی یہی ظلم ہوا تب بھی بھٹو صاحب نے ایک بڑی تعداد کو کنٹریکٹ پر رکھا ہوا تھا تاکہ سب ان کے نیچے کام کریں اس لیے 71ء کے بعد باقاعدہ موومنٹ چلی جس کے بعد پورے پاکستان کے کنٹریکٹ ملازمین کو کنفرم کیا گیا لیکن افسوس کے ساتھ جس نے یہ ظلم سہا اس نے طاقت میں آکر وہی فرعونیت دکھائی ۔
اب اگر کوئی یہ بکواس کرتا ہے کہ پاکستان میں کوئی ٹیسٹ انٹرویو کے بغیر کنفرم نہیں ہوگا تو وہ بکواس کرتا ہے کیونکہ 2010 سے 18 ویں ترمیم بھی لاگو ہوچکی ہے جو صوبے کی طرح ہر شعبے کے ہیڈ کو مکمل اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنے اختیار پر ملازم کو کنفرم کریں ۔
خالد عراقی اسی قانون کے تحت میرا ا استحصال کر رہا ہے اور نئے بورڈ کا مقصد بھی یہی کہ جن کا استحصال کر رہاہے ان کو فائلوں کے بوجھ سے دبا دیں وہ کبھی سر ہی نہ اٹھا سکے ۔ عراقی صاحب کو لڑکوں کی زبان میں بتا دیتی ہوں اتنے اڑتے تیر ایڈجسٹ کر کے مت لیں ابھی تو بیٹھنا مشکل ہو رہا ہے ، پھر کھڑا ہونا بھی مشکل ہو جائے گا اور آخر میں اوندھے منہ گرا پڑا ہو گا ۔ میرا مقدمہ صرف دنیا کی عدالت میں نہیں ہے میں نے اللہ کی عدالت میں بھی پیش کیا ہوا ہے سوچ لے کس کا فیصلہ چاہیے ۔