کراچی : جامعہ کراچی کی سینیٹ کا اکیسواں اجلاس 6 برس بعد 29 دسمبر بہ روز جمعہ منعقد ہو گا ۔ اجلاس کے انعقاد کیلئے گزشتہ تین برس سے اساتذہ اور ٹیچرز سوسائٹی و منتخب سنڈیکیٹ اراکین نے متعدد بار مطالبات کیئے ۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ دو برس میں جامعہ کراچی میں نام نہاد مالی بحران کا بہانہ بنانے والی انتظامیہ کے خلاف جنرل باڈی و کونسل اجلاسوں میں مطالبات میں سے ایک مطالبہ سینیٹ اجلاس کا بھی رہا ہے ۔ جس کے بعد اب ارباب اختیار نے مجبور ہو کر سینیٹ کا اجلاس طلب کر لیا ہے ۔
واضح رہے کہ 6 برس میں پہلی بار اساتذہ و کالج اساتذہ کے منتخب نمائندے اور پروفیسران و صدور شعبہ جات کو یونیورسٹی کے اہم ترین معاملے یعنی بجٹ پر رائے دینے اور اس میں ترجیحات کو از سر نو طے کرنے کا موقع مل سکے گا ۔ یونیورسٹی ایکٹ پروفیسران اور منتخب اساتذہ کو اکیڈمک کونسل، سنڈیکیٹ اور سینیٹ میں یونیورسٹی انتظامیہ کا احتساب کرنے کا آئینی حق دیتا ہے ۔ لیکن یہی حق سال میں دو سنڈیکیٹ، ایک اکیڈمک کونسل ہوتی ہے جب کہ یہ دونوں ایکٹ کے مطابق ہر ماہ ہونی چاہئیں ۔
جس طرح بی اے ایس آر کے فیصلوں کی توثیق اکیڈمک کونسل کو کرنی چاہئیے تب ہی طالبعلم کا داخلہ، عنوان، ایگزامنر اور بعد ازاں ڈگری دی جانی چاہئیے، افیلیٹڈ کالجز کو الحاق اکیڈمک کونسل کی منظوری پر ملنا چاہئیے مگر اکیڈمک کو سال میں ایک بار کر کے بی اے ایس آر کو اور الحاق کمیٹی کو غیر آئینی طور پر فیصلہ ساز بنا دیا گیا ہے ۔
اسی طرح سنڈیکیٹ کو مکمل بجٹ (جو قریب سو صفحات کا ہوتا ہے) کہ بجائے دس صفحہ کی بنا تفصیل سمری فراہم کی جاتی ہے جو چار سالوں سے سنڈیکیٹ مسترد کرتی ہے مگر بجٹ خرچ ہوتا رہتا ہے ۔ ایسے ہی سینیٹ کے ایجنڈے میں 2017 تا 2024 کے مکمل بجٹ کے بجائے ان 7 بجٹوں کی سمری کو ایجنڈے میں بھیجا گیا ہے ۔
اس حوالے سے سنڈیکیٹ کے رکن ڈاکٹر ریاض احمد کا کہنا ہے کہ ایک بار پھر ہم سب کی کوششوں کے باوجود سینیٹ کے اجلاس میں نامکمل بجٹ ہیش کر کے سینیٹ کو ربڑ اسٹیمپ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اساتذہ کو چاہئیے کہ وہ مکمل بجٹ کی فراہمی کا مطالبہ کریں تا کہ اس نااہل انتظامیہ کا حسب توفیق سینیٹ میں احتساب ممکن ہو ۔
بہترین رپورٹنگ