کراچی : جامعہ کراچی سینیٹ کے اجلاس میں ڈائریکٹر فنانس طارق کلیم کو جواب دینا مشکل ہو گئے ، وائس چانسلر بھی ڈائریکٹر فنانس کے خلاف بول پڑے ، ہائر ایجوکیشن کمیشن کی نمائندہ کے اعتراضات کے جوابات دینا مشکل ہو گیا ، مخصوص نشستوں کے حامل امیدواروں نے زیادہ سوالات کے بجائے معمولی اعتراضات پر ہی اکتفا کیا ۔
تفصیلات کے مطابق جامعہ کراچی کی سینیٹ کا 6 برس بعد منعقد ہونے والا خاصی دلچسپی کا حامل رہا ہے ۔ اجلاس بدھ کی سہ پہر 3 بجے شروع ہوا ، جو شام 6 بجے تک جاری رہا ، اجلاس میں ڈیڑھ سو کے قریب اراکین شریک رہے ۔
اجلاس میں گزشتہ اجلاس کے منٹس کی منظوری سے لیت و لعل سے کام لینے کی کوشش کی گئی جس پر اراکین نے اعتراض کیا اور کہا کہ اگر سابقہ اجلاس کے منٹس کو منظور نہ کیا گیا تو اس صورت میں خرچ شدہ سابق بجٹ پر اعتراض اٹھے گا جس کی وجہ سے سابقہ اجلاس کے منٹس کو منظور کیا گیا ۔
اجلاس میں موجودہ سال کے بجٹ کے حوالے سے سوال کیا گیا جس پر کہا گیا کہ اس کی منظوری فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی کے بعد ہو گی جس کے بعد اجلاس میں فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی کے لئے سینیٹ کے ایک نمائندہ کیلئے الیکشن منعقد کیا گیا ، جس میں ڈاکٹر روحی احمد کو 56 اور ڈاکٹر صالحہ رحمن کو 59 ووٹ حاصل ہوئے جس کے بعد ڈاکٹر صالحہ رحمن فنانس اینڈٖ پلاننگ کمیٹی کی رکن بن گئیں ۔
اجلاس میں اعلی تعلیمی کمیشن کی نمائندہ نے دو بار پر زور اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں مکمل تفصیلات نہیں دی گئی ہیں ۔ جس پر ہمیں تحفظات ہیں ، جس کے بعد وائس چانسلر نے بھی نمائندہ ایچ ای سی کی بات کی تائید کرتے ہوئے ڈائریکٹر فنانس کے خلاف بات کی ۔
ڈائریکٹر فنانس طارق کلیم کی زبردست سُبکی اس وقت ہوئی جب انہوں نے کہا وفاقی حکومت یعنی ہائر ایجوکیشن کمیشن سے جب بھی ہم بجٹ مانگتے ہیں تو وہاں سے ہمیں کم گرانٹ ملتی ہے جب کہ سندھ حکومت سے کم مانگتے ہیں تو ہمیں زیادہ مل جاتے ہیں ۔ جس پر ان کی اس عجیب دلیل پر اراکین سینیٹ ہنس پڑے ۔
جامعہ کراچی کی سینیٹ میں ڈائریکٹر فنانس نے غلط اعداد و شمار کے ذریعے بجٹ بنا کر پیش کیا ، جس پر سامنے آنے والے اعتراضات کے بعد ڈائریکٹر فنانس نے کہا کہ میں کاغذات دیکھ کر بتا سکتا ہوں ۔ جب کہ ریسرچ کی گرانٹ کے حوالے سے بھی غلط اعداد و شمار پیش کیئے گئے ۔ 14 صفحے کا بجٹ پیش کیا گیا جب کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو تفصیلی بجٹ بک بھیجی گئی ۔
سینیٹ میں طلبہ کی فیسیں بڑھانے کے حوالے سے بھی بات کی گئی ، جس پر یہ توجیہ پیش کی گئی کہ یونیورسٹی کے اخراجات زیادہ ہیں جس پر کالجز کے نمائندوں نے کہا کہ یونیورسٹی کی رجسٹریشن و امتحانی فیس سے ہم نے زیادہ فیسیں دی ہیں جس کے باوجود ہمارے اساتذہ کی ادائیگیاں 5 پانچ برس سے تعطل کا شکار ہیں اور ہمارے طلبہ کیلئے کھیلوں کی سرگرمیاں تک نہیں ہوتیں ۔جس کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا جا سکا ۔
سینیٹ اجلاس میں وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کالجز کے حوالے سے تقریر میں کوئی بات نہیں کی ۔ جس پر کالجز کے اساتذہ نے انہں تنقید کا نشانہ بنایا کہ آپ نے تقریر نے کالجز کے اسٹیک ہولڈرز کے لیئے کوئی بات ہی نہیں کی ہے ۔
اجلاس میں سوائے ڈاکٹر ریاض احمد کے کسی نے بھی نوٹ آف ڈیسنٹ نہیں لکھا ، جب کہ سینیٹ کے اراکین نے ڈائریکٹر فنانس کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اس سارے معاملے میں یونیورسٹی کی انتظامیہ پر کوئی بھی سوال نہیں اٹھایا ۔ بجٹ والے معاملے میں وائس چانسلر نے خود بھی ڈائریکٹر فنانس پر دو تین بار تنقید کی ۔
سینیٹ میں سوال اٹھا گیا کہ 2014 کی سینیٹ میں کہا گیا تھا کہ جامعہ کراچی کے اندر قائم سینٹرز کے لئے ماڈل اسٹیچوذ بنائیں گے جس پر اب تک کوئی خاظر خواہ کام نہیں ہوا ہے ۔ جس پر وائس چانسلر نے کہا کہ سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا نمائندہ اس کمیٹی میں نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ ماڈلز اسٹیچوز نہیں بنے ہیں ۔ جس کے بعد ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جس میں ڈاکٹر فیاض وید ، ڈاکٹر حارث شعیب ، ڈاکٹر نورین اور ڈین لا شامل ہیں ۔ کمیٹی دو ماہ میں رپورٹ پیش کرے گی ۔
دریں اثنا اجلاس میں ناظم مالیات جامعہ کراچی طارق کلیم نے سالانہ اسٹیٹمنٹ 2017-18ء، 2018-19 ء،2019-20 ء،2020-21ء اور 2021-22ء اور نظرثانی شدہ بجٹ018-19ء، 2019-20ء، 2020-21ء، 2021-22ء اور 2022-23ء پیش کیا جس کی اجلاس نے متفقہ منظوری دی ۔
تفصیلات کے مطابق 2017-18ء میں وفاقی حکومت کی جانب سے 2031.894 ملین کی گرانٹ موصول ہوئی ، صوبائی حکومت کی جانب 469.610 ملین کی گرانٹ موصول ہوئی اورجامعہ کراچی کی اپنی آمد ن2004.106 ملین رہی ہے۔اس طرح جامعہ کراچی کو کل 4505.610 ملین موصول ہوئے جبکہ 2017-18 ء میں فیکلٹی ممبرز کی تنخواہوں کی مد 1140.359 ملین، ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کی تنخواہوں کی مدمیں 488.725 ملین جب کہ الائیڈاسٹاف کی تنخواہوں کی مد میں 407.271، ٹینیور ٹریک کی مد میں 30.120 اور دیگر اسٹیبلشمنٹ چارجز کی مدمیں 236.547 ملین خرچ ہوئے۔ یوٹیلیٹیز کی مد میں 422.199، رینٹ آف ریزیڈینشل بلڈنگ 189.662، امتحانات کے انعقاد کی مد میں 104.183، جزوقتی اساتذہ کے اعزازیہ کی مد میں 248.861، ریٹائرڈ ملازمین کو واجبات اور پینشن کی مد میں 727.150،فیول کی مد میں 42.378 کیمیکلز/ گلاس ویئر کی مد میں 18.324، ریسرچ کی مد میں 8.253، مختلف اشیاء کی خریداری کی مد میں 12.956، لائبریری اخراجات کی مد میں 14.253 اور دیگر اخراجات کی مد میں 112.963 ملین خرچ ہوئے اس طرح 2017-18ء کے کل اخراجات 4204.203 ملین رہے۔
2018-19 ء میں وفاقی حکومت کی جانب سے 2051.397 ملین کی گرانٹ موصول ہوئی جبکہ صوبائی حکومت کی جانب 556.200 ملین کی گرانٹ موصول ہوئی اورجامعہ کراچی کی اپنی آمد ن2305.854 ملین رہی ہے۔اس طرح جامعہ کراچی کو کل 5214.858 ملین موصول ہوئے جبکہ 2018-19 ء میں فیکلٹی ممبرز کی تنخواہوں کی مد 1222.947 ملین، ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کی تنخواہوں کی مد میں 647.945 ملین جبکہ الائیڈاسٹاف کی تنخواہوں کی مد میں 505.454، ٹینیورٹریک کی مد میں 23.853 اور دیگر اسٹیبلشمنٹ چارجز کی مدمیں 260.242 ملین خرچ ہوئے۔ یوٹیلیٹیزکی مد میں 378.759، رینٹ آف ریزیڈینشل بلڈنگ318.127، امتحانات کے انعقاد کی مد میں 149.029،جزوقتی اساتذہ کے اعزازیہ کی مد میں 255.461،ریٹائرڈملازمین کو واجبات اور پینشن کی مد میں 945.877،فیول کی مد میں 36.011 کیمیکلز/ گلاس ویئرکی مد میں 17.924، ریسرچ کی مد میں 58.926،مختلف اشیاء کی خریداری کی مد میں 12.148،لائبریری اخراجات کی مد میں 2.173 اوردیگر اخراجات کی مد میں 130.925 ملین خرچ ہوئے اس طرح 2018-19 ء کے کل اخراجات4965.801 ملین رہے۔
2019-20 ء میں وفاقی حکومت کی جانب سے 2033.253 ملین کی گرانٹ موصول ہوئی جبکہ صوبائی حکومت کی جانب 544.090 ملین کی گرانٹ موصول ہوئی اورجامعہ کراچی کی اپنی آمد ن2354.481 ملین رہی ہے۔اس طرح جامعہ کراچی کو کل 5180.881 ملین موصول ہوئے جبکہ 2019-20 ء میں فیکلٹی ممبرز کی تنخواہوں کی مد 1385.440 ملین، ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کی تنخواہوں کی مدمیں 745.016 ملین جبکہ الائیڈاسٹاف کی تنخواہوں کی مد میں 532.154،ٹینیورٹریک کی مد میں 17.763 اوردیگر اسٹیبلشمنٹ چارجز کی مد میں 181.020 ملین خرچ ہوئے۔ یوٹیلیٹیزکی مد میں 391.721،رینٹ آف ریزیڈینشل بلڈنگ کی مد میں 324.914، امتحانات کے انعقاد کی مد میں 116.430، جزوقتی اساتذہ کے اعزازیہ کی مد میں 198.954،ریٹائرڈملازمین کو واجبات اور پینشن کی مد میں 1059.471، فیول کی مد میں 24.068 کیمیکلز/ گلاس ویئرکی مد میں 11.416،ریسرچ کی مد میں 56.926، مختلف اشیاء کی خریداری کی مد میں 25.549،لائبریری اخراجات کی مد میں 0.370 اوردیگر اخراجات کی مد میں 133.873 ملین خرچ ہوئے اس طرح 2019-20 ء کے کل اخراجات5205.083 ملین رہے ۔
2020-21 ء میں وفاقی حکومت کی جانب سے 2136.054 ملین کی گرانٹ موصول ہوئی جبکہ صوبائی حکومت کی جانب 637.335 ملین کی گرانٹ موصول ہوئی اورجامعہ کراچی کی اپنی آمد ن2782.365 ملین رہی ہے۔اس طرح جامعہ کراچی کو کل 5555.754 ملین موصول ہوئے جبکہ 2020-21 ء میں فیکلٹی ممبرز کی تنخواہوں کی مد 1409.080 ملین،ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کی تنخواہوں کی مدمیں 770.371 ملین جبکہ الائیڈاسٹاف کی تنخواہوں کی مد میں 536.578،ٹینیورٹریک کی مد میں 18.447 اوردیگر اسٹیبلشمنٹ چارجز کی مدمیں 375.388 ملین خرچ ہوئے۔یوٹیلیٹیزکی مد میں 351.592،رینٹ آف ریزیڈینشل بلڈنگ کی مد میں 336.556، امتحانات کے انعقاد کی مد میں 100.280،جزوقتی اساتذہ کے اعزازیہ کی مد میں 274.998،ریٹائرڈملازمین کو واجبات اور پینشن کی مد میں 1115.409،فیول کی مد میں 15.182 کیمیکلز/ گلاس ویئرکی مد میں 20.00، ریسرچ کی مد میں 36.435،مختلف اشیاء کی خریداری کی مد میں 40.776،لائبریری اخراجات کی مد میں 0.946 اوردیگر اخراجات کی مد میں 180.337 ملین خرچ ہوئے اس طرح 2020-21 ء کے کل اخراجات5582.375 ملین رہے۔
2021-22 ء میں وفاقی حکومت کی جانب سے 1989.471 ملین کی گرانٹ موصول ہوئی جبکہ صوبائی حکومت کی جانب 1270.250 ملین کی گرانٹ موصول ہوئی اورجامعہ کراچی کی اپنی آمد ن3454.842 ملین رہی ہے۔اس طرح جامعہ کراچی کو کل 6714.563 ملین موصول ہوئے جبکہ 2021-22 ء میں فیکلٹی ممبرز کی تنخواہوں کی مد 1490.557 ملین،ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کی تنخواہوں کی مد میں 912.587 ملین جبکہ الائیڈاسٹاف کی تنخواہوں کی مد میں 638.810،ٹینیورٹریک کی مد میں 14.029 اور دیگر اسٹیبلشمنٹ چارجز کی مد میں 400.332 ملین خرچ ہوئے۔ یوٹیلیٹیزکی مد میں 500.351،رینٹ آف ریزیڈینشل بلڈنگ487.360،امتحانات کے انعقاد کی مد میں 103.363،جزوقتی اساتذہ کے اعزازیہ کی مد میں 318.463،ریٹائرڈملازمین کو واجبات اور پینشن کی مد میں 1393.356،فیول کی مد میں 24.758 کیمیکلز/ گلاس ویئرکی مد میں 23.408،ریسرچ کی مد میں 41.566،مختلف اشیاء کی خریداری کی مد میں 23.950،لائبریری اخراجات کی مد میں 0.397 اوردیگر اخراجات کی مد میں 233.990 ملین خرچ ہوئے اس طرح 2021-22 ء کے کل اخراجات6607.277 ملین رہے۔