کراچی : جامعہ کراچی کے ریسرچ سینٹر ICCBS میں 45 گھنٹے ڈائریکٹر تعینات رہنے والے پروفیسر ڈاکٹر اقبال چوہدری نے غیر قانونی اشتہار جاری کرنے کے علاوہ 5 سے زائد دفتری لیٹرز جاری کئے ہیں ، جب کہ اب بھی پروفیسر ڈاکٹر اقبال چوہدری اسلام آباد میں قانونی امور پر مشاورت اور دیگر اہم ذرائع سے ملاقاتیں کر کے واپسی کی تگ و دو میں مصروف ہیں ۔
تفصیلات کے مطابق جامعہ کراچی کے وائس چانسلر نے سخت دبائو میں مبینہ طور پر باہمی رضامندی سے 13 مئی کو حکم دیکر جامعہ کے استاد و قائم مقام رجسٹرار ڈاکٹر عبدالوحید کے دستخط سے غیر قانونی پر عدالتی حکم کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے 65 سالہ ڈاکٹر اقبال چوہدری کو 6ویں بار ڈائریکٹر تعینات کر دیا تھا ۔
جس کے بعد پروفیسر ڈاکٹر اقبال چوہدری 13 مئی کی سہہ پہر سے لیکر 15 مئی کی دوپہر تک مجموعی طور پر 45 گھنٹے تک ڈائریکٹر تعینات رہے ہیں ، ان کی اچانک اس تعیناتی سے سینٹر میں قائم امن کی صورتحال ایک دم احتجاج میں بدل گئی اور ماسوائے چند خواتین اساتذہ کے تمام اساتذہ ‛ افشران و ملازمین سراپا احتجاج ہو گئے ۔
جس کے بعد سابق ہو جانے والی قائم مقام ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر فرزانہ شاہین نے سندھ ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن نمبر 506/2024 داخل کی اور سندھ ہائی کورٹ کو بتایا کہ جامعہ کراچی کے کوڈ اور ادارے کے اسٹیچوز کیمطابق ادارے میں کوئی بھی ڈائریکٹر حاضر سروس سینیئر پروفیسرز میں سے ہی کسی ایک کو بنایا جاتا ہے کسی ریٹائرڈ کو نہیں بنایا جا سکتا اور لہذاہ 13 مئی کو جاری ہونے والا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیا جائے ۔
جس کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے 15 مئی کو 13 مئی کے نوٹی فکیشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر فرزانہ شاہین کی تعیناتی کو برقرار رکھنے کا حکم جاری کر دیا جس کے بعد 15 مئی دوپہر سے دو بجے کے لگ بھگ مذکورہ خبر یونیورسٹی میں پہنچتے ہی ریسرچ سینٹر ICCBS میں خوشی کا سماں بندھ گیا تھا ۔ انجمن اساتذہ کے نمائندوں کے علاوہ سینٹر کے تمام اساتذہ کو ملازمین جمع ہو گئے ۔
پروفیسر ڈاکٹر فرزانہ شاہین نے سینٹر کے آڈیٹوریم میں اساتذہ ، افسران و ملازمین سے مختصر خطاب کیا اور باہمی روابط اور اصول و قواعد کیمطابق ادارے کے امور کو چلانے کے عزم کا اظہار کیا ۔ اس دوران اساتذہ ، افسران ، ملازمین اور طلبہ نے جس پرتپاک انداز میں ان کا استقبال کیا وہ جامعہ کی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ۔
واضح رہے کہ پروفیسر ڈاکٹر اقبال چوہدری نے انتہائی عجلت میں بغیر منظوری کے ایک غیر قانونی اشتہار جاری کیا جو 16 مئی کے اخبارات میں شائع بھی ہو گیا جس کے مطابق ICCBS کو 55 سال سے کم عمر ‛ 25 ریسرچز H-Index میں اور 5 سالہ ایڈمنسٹریشن کے تجربہ کے حامل امیدوار کی ضرورت ظاہر کی گئی تھی ۔ حب کہ اسٹیچوز کیمطابق سینٹر میں ڈائریکٹر کیلئے 3 سینئر پروفیسرز کے نام اتھارٹی کو بھیجے جانے ہوتے ہیں ۔
ان 45 گھنٹوں میں پروفیسرز ڈاکٹر اقبال چوہدری نے سامنے آنے والے 5 کے لگ بھگ دفتری لیٹرز جاری کیئے جن میں 8 ماہ قبل کے عہدوں پر بعض اساتذہ کی بحالی سمیت اساتذہ ‛ افسران اور طلبہ کو دھمکی آمیز لیٹر کے تحت احتجاج سے واپس آنے کا اپنا کام جاری رکھنے کا حکم دیا تھا ۔
ادھر سینئر اساتذہ کا کہنا ہے کہ اب خاکم بدہن اگر کسی بھی انہونی کی صورت میں پروفیسر ڈاکٹر اقبال چوہدری یا اسی ذہن کا کوئی افسر ICCBS میں تعینات ہو بھی جاتا ہے تو اب ڈکٹیٹر شپ سے نکلنے کیلئے اساتذہ ‛ افسران و ملازمین کو زبان مل چکی ہے تاہم اب افسران و ملازمین کی ایسوسی ایشن کیلئے NIRC میں رجسٹریشن کا مرحلہ باقی ہے ۔
دوسری جانب بعض اساتذہ کا یہ بھی خیال ہے کہ موجودہ ڈائریکٹر کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والی خواتین اور جعل سازی کے ذریعے بیرون ملک جانے کی کوشش کرنے والی خاتون سمیت دیگر ایسے ہی کیسز میں پروفیسر ڈاکٹر فرزانہ شاہین کو فی الفور اور سخت ایکشن لینے ہونگے اور ایسے عناصر کو دفاعی لائن میں لانا ہو گا بصورت دیگر وہ ایسی ہی خلاف قانون حرکات سے بااصول انتظامیہ کو حسبِ حال دفاعی لائن پر کھڑا کریں گے اور یہ کسی بھی طور احسن صورتحال نہیں سمجھی جاتی ۔