تحریر: فخر عالم قریشی
گلگت بلتستان میں تعلیمی نظام کی زبوں حالی اور میرٹ کے قتل کی کہانی ایک عرصے سے جاری ہے، مگر حالیہ امتحانی نتائج نے اس بحران کو ایک نئی شدت بخشی ہے۔ سوشل میڈیا پر عوامی ردعمل اس بات کا غماز ہے کہ محکمہ تعلیم کی ناقص کارکردگی نے عوام کے اعتماد کو سخت مجروح کیا ہے۔ کلاس نہم اور دہم کے نتائج نے جہاں تعلیمی اداروں کے معیار پر سنگین سوالات اٹھائے، وہاں اساتذہ کی اہلیت اور محکمہ تعلیم کی انتظامیہ کی قابلیت پر بھی شکوک و شبہات کو ہوا دی۔ وزیر اعلیٰ اور چیف سیکریٹری کی جانب سے محکمہ تعلیم سے تفصیلی رپورٹ طلب کرنا ایک مثبت قدم ضرور ہے، مگر اس مسئلے کی جڑ تک پہنچے بغیر اس بحران کا حل ممکن نہیں۔
یہ حقیقت عیاں ہے کہ محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کے عمل سے لے کر تبادلوں اور ترقیوں تک، ہر جگہ میرٹ کا خون کیا جا رہا ہے۔ یہاں سیاسی سفارش کی بنیاد پر ایسے افراد کو بھرتی کیا گیا ہے جن کی تعلیمی قابلیت بمشکل ایف اے تک محدود ہے۔ غیر تعلیم یافتہ اور غیر پیشہ ور افراد کو انتظامی عہدوں پر تعینات کرکے محکمہ تعلیم کو سیاست کا گڑھ بنا دیا گیا ہے۔ اس افسوسناک حقیقت کے باوجود، اب تک کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ ان اساتذہ کا ٹیسٹ کیوں نہیں لیا جاتا جو صرف سفارش کی بنیاد پر بھرتی ہوئے ہیں۔
اساتذہ کی بھرتی کے عمل میں قومیت اور سیاسی وابستگی کا کارڈ کھیلنا ایک معمول بن چکا ہے، جس کے باعث تعلیمی اداروں کا ماحول زہر آلود ہو چکا ہے۔ اسکولوں میں اساتذہ کی جانب سے سیاسی بحث مباحثے نہ صرف طلباء کو تعلیمی میدان میں پیچھے دھکیل رہے ہیں بلکہ ان میں نفرت اور تعصب کے بیج بھی بو رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بہتر نتائج کی توقع کرنا سراسر عبث ہے۔
جان ہیٹی کی کتاب "ویزیبل لرننگ” کے مطابق، اساتذہ کی طلباء سے تعلیمی توقعات ان کی کارکردگی پر نمایاں اثر ڈالتی ہیں۔ جب اساتذہ طلباء سے اعلیٰ توقعات رکھتے ہیں تو طلباء عموماً بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔ فیڈبیک طلباء کی تعلیمی ترقی کے لیے انتہائی اہم ہے، جس سے طلباء اپنی غلطیوں سے سیکھ کر اپنی کارکردگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ مزید برآں، اساتذہ اور طلباء کے درمیان مضبوط اور مثبت تعلقات طلباء کی تعلیمی کامیابی کے لیے لازمی ہیں۔ طلباء کی اپنی تعلیمی کارکردگی کے بارے میں آگاہی بھی کامیابی پر اثرانداز ہوتی ہے۔
ان مسائل کے حل کے لیے سب سے پہلے اساتذہ کی تربیت پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اساتذہ کے لیے تربیتی ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد کیا جائے، جن میں جدید تدریسی تکنیکوں، تعلیمی نفسیات، اور کلاس روم مینجمنٹ پر خصوصی توجہ دی جائے۔ اساتذہ کی پیشہ ورانہ ترقی کے لیے ترقیاتی کورسز اور سرٹیفیکیشن پروگرامز متعارف کرانا ضروری ہے، تاکہ وہ جدید تعلیمی رجحانات سے آگاہ رہ سکیں۔
اساتذہ کی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں مہارت پیدا کرنے کے لیے تربیت فراہم کی جائے، تاکہ وہ ڈیجیٹل تعلیمی وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کر سکیں۔ اساتذہ کی تحقیقی صلاحیتوں کو بھی بڑھانا ضروری ہے، تاکہ وہ تعلیمی مسائل کی تحقیق اور ان کے حل میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔ مختلف تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے درمیان تجربات کا تبادلہ بھی ایک اہم قدم ہوگا، جس سے اساتذہ مختلف تدریسی طریقوں سے واقف ہو سکیں گے۔ اساتذہ کی کارکردگی کا وقتاً فوقتاً جائزہ لینا اور ان کی کارکردگی کے مطابق ترغیبی پروگرامز متعارف کرانا بھی ضروری ہے، تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ اپنی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کریں۔
ان تمام اقدامات کے باوجود، نظام تعلیم میں اصلاحات کا عمل تب ہی مؤثر ہوگا جب اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز، بشمول والدین، طلباء، اور مقامی کمیونٹی، کی شمولیت ہو۔ یہ ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات مل کر تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے کام کریں۔ گلگت بلتستان میں تعلیمی معیار کی بہتری کے لیے ان اقدامات کا نفاذ از حد ضروری ہے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔