کراچی : وفاقی اردو یونیورسٹی کے قائم مقام شیخ الجامعہ نے سینڈیکیٹ کے اجلاس میں کثیر تعداد میں غیر تدریسی ملازمین کو ترقیاں دینے کی تیاریاں شروع کر دیں ۔ سینیٹ کے خصوصی اجلاس میں قائم مقام شیخ الجامعہ پر ترقیوں کی پابندی عائد کی گئی تھی ۔ یونیورسٹی کے موجودہ مالی بحران کی صورتحال میں یہ اقدام انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی اردو یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کا پنتالیسواں اجلاس مورخہ ۲۲/دسمبر ۲۲۰۲ء کو متوقع ہے ۔ اس اجلاس میں سابقہ سینڈیکیٹ اور جی أر ایم سی کے اجلاسوں کی روداد کی منظوری کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں غیر تدریسی ملازمین کو ترقیاں دینے کی بھی شقیں ایجنڈے میں شامل کی گئی ہیں۔
اس وقت یونیورسٹی سنگین مالی بحران سے نبرد آزما ہے، تنخواہوں اور رینٹل سیلنگ کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین سراپا احتجاج ہیں جبکہ نئے تقرر کیے گئے اساتذہ کو 6 ماہ سے تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی۔ ایسی صورتحال میں من پسند افراد کی خلاف ضابطہ ترقیاں یونیورسٹی کے موجودہ مالی بحران میں مزید اضافہ کا باعث بن سکتی ہیں۔
مزید یہ کہ سینیٹ کے خصوصی اجلاس میں جب موجودہ قائم مقام شیخ الجامعہ کا 4 ماہ کے لیے تقرر کیا گیا تو ان پر ترقیاں اور تقرر کرنے کی پابندی عائد کی گئی تھی۔ اس تناظر میں بھی یہ ترقیاں خلاف قانون ثابت ہو سکتی ہیں۔ ترقیوں کی ان شقوں میں ایک شق ڈرائیورز اور میسنجرز کی اپ گریڈیشن شامل ہے۔
اطلاعات کے مطابق جس حکومتی اعلامیہ کو بنیاد بناتے ہوئے یہ ترقیاں کرنے کی تیاری کی گئی ہے وہ اعلامیہ وفاقی حکومت کی طرف سے منسوخ ہو چکا ہے، لہٰذا یہ ترقیاں خلاف قانون ہوں گی۔ ترقیوں کی ان شقوں میں جناب ہلال بختیار، اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو گریڈ 16 سے گریڈ 17میں ترقی دینے کی شق بھی شامل ہے۔ یونیورسٹی قوانین کے مطابق گریڈ 16 سے گریڈ 17 میں ترقی کے لیے سلیکشن بورڈ یا سلیکشن کمیٹی کا انعقاد ہونا ضروری ہے اور یہ ترقی سینڈیکیٹ کے ذریعے نہیں ہو سکتی۔
ان شقوں میں جناب غلام مرتضی ہارڈویئر ٹیکنیشن کو گریڈ 7سے ترقی دے کر اسسٹنٹ ڈیٹا بیس کا عہدہ دینے کی بھی تجویز زیر غور ہے۔ اسسٹنٹ ڈیٹا بیس کی آسامی گریڈ 16کی ہے لہٰذا یہ ترقی بھی خلاف ضابطہ اور وائس چانسلر کے اختیارات سے تجاوز ہو گی۔ گریڈ 15کے معین اکبر کمپیوٹر آپریٹر کو گریڈ 16دینے کی شق بھی اس ایجنڈے میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کیمپس کے لیب اسٹاف کی اپ گریڈیشن کو بھی اس سینڈیکیٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
یونیورسٹی میں فرائض انجام دینے والی میڈیکل آفیسر ڈاکٹر فوزیہ حق کی مستقلی کا معاملہ بھی اس ایجنڈے میں شامل ہے۔ اساتذہ کے امتحانی امور کے اعزازیہ میں اضافہ اور پی ایچ ڈی الاؤنس کے اعزازیہ میں اضافہ کا معاملہ بھی اس سینڈیکیٹ کے ایجنڈے میں شامل ہے جس سے مالی بوجھ میں اضافہ ہوجائے گا۔ اسی طرح پی ایچ ڈی کی تکمیل پر اسسٹنٹ پروفیسر (ایڈہاک) اور گریڈ 19کی رینٹل سیلنگ کی ادائیگی کی منظوری بھی اس ایجنڈے میں شامل ہے جس کا ایچ ای کے مطابق کوئی قانون موجود نہیں اور اس پر آڈٹ بھی کئی بار اعتراضات کر چکا ہے۔ ان تمام تجاویز کی منظوریوں کے علاوہ بھی کئی ایسے معاملات سینڈیکیٹ کے ایجنڈے میں رکھے گئے ہیں جو وائس چانسلر کے ان اختیارات سے تجاوز ہیں جو انہیں سینیٹ نے تقرر کرتے وقت تفویض کیے گئے تھے یا پھر یونیورسٹی کے موجودہ مالی صورتحال میں کسی صورت بھی مددگار ثابت نہیں ہوں گے۔