جمعرات, مارچ 28, 2024
صفحہ اولتازہ ترینجامعۃ الغزالی : حقائق در از تر گفتم

جامعۃ الغزالی : حقائق در از تر گفتم

 تحریر : مولانا محمد جہان یعقوب

ہمارے علماء کو کیا ہو گیا ہے، پہلے ہرنئی چیز، نئی بات، نئی یافت و دریافت اور نئی پیش رفت کی مخالفت کرتے ہیں، اِن کی صلاحیتیں مخالفت میں صَرف ہوتی ہیں، یہ اسی کو دین کی سب سے بڑی خدمت تصور کرتے ہیں اور دوسرے اُس محاذ پر فاتحانہ جھنڈے گاڑ چکے ہوتے ہیں،جب یہ مخالفت سے تھَک جاتے ہیں تواِن کی آنکھ کھُلتی ہے، اَب یہ اُس جانب دوڑنے لگتے ہیں؛ مگر تب تک کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے، دوسرے اِن سے بہت آگے نکل چُکے ہوتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ علومِ نبوتﷺ کے حاملین کو ایسوں کی پیروی کرنی پڑتی ہے جنھیں شاید صحیح سے قرآن کی کوئی ایک سورت بھی نہ آتی ہو ۔

زیادہ پُرانی بات نہیں، پچھلی دہائی کی بات ہے، کیا مدارس میں عصری تعلیم کے حصول پر قدغنیں نہیں تھیں؟ کتنے طلبہ و طالبات ڈیت شیٹ سمیت چھٹی کے لیے نظامتِ تعلیم کے دفاترمیں جاتے اور رُسوا ہو کر واپس آتے تھے، والدین کی جمع کرائی ہوئی فیس بھی ضائع ہو جاتی تھی، سال بھی اور مدارس والے خوش ہوتے تھے کہ ہم نے اپنی رٹ قائم کر دی ہے۔

کتنے اساتذہ تھے جو کلاسوں میں عصری تعلیم اور عصری تعلیم گاہوں کی ’’حرمت‘‘پر کئی کئی گھنٹے ’’درس ‘‘دیا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ہم نے ’’لال قلعہ ‘‘ فتح کر لیا ہے ۔ اِسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا رُخ کرنے کو’’سمِ قاتل‘‘ گردانا جاتا تھا اور بزبانِ حال یہ درس دیا جاتا تھا ،

جس کو ہوجان و دل عزیز، اُس کوچے میں جائے کیوں؟

اگر کوئی سر پھِرا اُس کوچے کا رُخ کر بھی لیتا تو اُس کےاوپر پھبتیاں کَسی جاتی تھیں، اُسے اکابر کے طرز سے ہٹا ہو اقرار دیا جاتا تھا، اُس کی گمراہی کے فتووں کی مشین گنیں پر وقت لو ڈر کھی جاتی تھیں کہ جہاں سامنا ہو فائر کی جائیں، اُس کوطعنے دیے جاتے تھے کہ اِس نے علومِ نبوتﷺ کے بعد لارڈ میکالے کے بدبودار اور متعفن نظام کو اختیار کر لیا، ایسوں کی شلواریں ناپی اورٹوپیاں دیکھی جاتی تھیں، ٹوپی کا سر سے اُترنا اِس قدر معیوب سمجھا جاتا تھا جیسے ’’اسلام کا قلادہ‘‘ ہی گلے سے اُتار پھینکا ہو ۔

ہاں! اِن آفاقی حقائق کے بیچ ایک سچائی یہ بھی تھی، تب بھی تھی اَب بھی ہے۔۔۔ کہ اہلِ اہتمام وانتظام نے یہ سب قدغنیں ’’پرائے‘‘بچوں بچیوں پر لگا رکھی تھیں، اپنے لخت ہائے جگر کے لیے سب راہیں کھُلی رکھی ہوئی تھیں، وہ تب بھی دنیاوی تعلیم حاصل کرتے تھے، ڈگریاں لیتے تھے، یونیورسٹیوں میں پڑھتے تھے۔ خیر، اِس دوئی اور دورُخی پر پھر کبھی خامہ فرسائی کریں گے، کہ مدارس میں ماضی میں بہت کچھ ایسا ہوتا رہا، جسے عارف شفیق کے لفظوں میں یوں بیان کر سکتے ہیں

غریبِ شہر تو فاقے سے مر گیا عارف
امیرِ شہر نے ہیرے سے خود کُشی کر لی

آمدم برسرِ مطلب! کہاں گئے وہ فتوے، وہ پھبتیاں، وہ طعنے، وہ کوسنے،سب ہوا ہو گئے۔ اچھا ہوا، جو تم نے وقت کی پکار کوسمجھ لیا، ورنہ بہت سے لوگ اب بھی نہیں سمجھے۔ وہ اب بھی تمہاری اِس اُڑان پر معترض ہوں گے، تمہیں اسٹیبلشمنٹ کی چاکری کے طعنے دیں گے، موسس اول شیخ الحدیث مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ کی سوچ و فکر کا باغی قراردیں گے، اکابر کی نہج سے ہٹا ہوا کہیں گے، یہ سب تو ہوتا رہے گا، مگر تمہیں ہدیہ تبریک پیش کرنے والے بھی کم نہیں، تمہاری اِس اپروچ پر ملک کادین دارطبقہ، نوجوان علماء، فضلاء، مفتیانِ کرام خوش ہیں، جن کو قدم قدم پر اِس محرومی کا احساس ہوتا ہے، جن کے بڑھتے قدم جدید تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے بیچ راستے میں رُک جاتے ہیں، جن کوجدید تعلیم سے نابَلدہونے کی وجہ سے معاشرہ’’دو رکعات کے امام‘‘سے آگے کوئی حیثیت دینے کو تیار نہیں، وہ خوش ہیں، وہ اِس پیش رفت کے پاراپنے جیسے نوجوان علماء کا روشن مستقبل دیکھ رہے ہیں، اُن کی عوامی مقبولیت دیکھ رہے ہیں، اُن کی عوام میں بڑھتی حیثیت ووَقعت دیکھ رہے ہیں اوراُنھیں جدید علوم کے ہتھیار سے لیس ہو کر اسلام کے آفاقی پیغام کو دنیا بھر میں پھیلاتا دیکھ رہے ہیں ۔

کہاں ہیں پیٹ پر پتھر باندھنے والے، یہ جوآج جدید عصری علوم کو بدستور نوجوانوں کے لیے سمِ قاتل سمجھتے ہیں، اِن بزرگوں سے بصد احترام عرض ہے، بزرگو! زمانہ بدل چُکا، آپ کوعصری تعلیم نہ ہونے کے باوجود ڈیفنس، کلفٹن، ڈی ایچ اے جیسے پوش علاقوں میں مساجد کی امامت و خطابت ملی ہوئی ہے، اچھی سرکاری ملازمتیں ملی ہوئی ہیں،آپ کی آمدنی لاکھوں میں اورآمد کروڑوں میں ہے، کیوں اِن غریب نوجوان فضلاء کا رزق مارنے میں لگے ہو، ان کے لیے ایثار و قربانی اور قناعت کا درس اور اپنے بعد اپنے بیٹے یا داماد کی امامت و خطابت، اہتمام و نظامت کے لیے پیشگی تقرری۔۔۔ یہ تضاد آخر کب تک!

ایک بار پھر اِس اہم پیش رفت پر جامعۃ الرشید کے مہتمم حضرت استاد صاحب مفتی عبدالرحیم، شیخ الحدیث مفتی محمد صاحب، پوری ٹیم، اساتذہ، انتظامیہ بالخصوص جگرم مولانا انور غازی، مولانا ندیم الرشید، مولانا مفتی رشید احمد خورشید سمیت سب دوستوں کو بہت بہت مبارک ہو، اللہ اِس پیش رفت کو جملہ مقاصدِ حسنہ کی تکمیل کا ذریعہ بنائے اور ہر قسم کے موہوم شکوک و شبہات، مضرات و مضمرات سے محفوظ رکھے!

News Desk
News Deskhttps://educationnews.tv/
ایجوکیشن نیوز تعلیمی خبروں ، تعلیمی اداروں کی اپ ڈیٹس اور تحقیقاتی رپورٹس کی پہلی ویب سائٹ ہے ۔
متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں

مقبول ترین