تحریر : عمر انور بدخشانی
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی
آج بوقت تہجد پاکستان کی ایک علمی و عملی شخصیت مفتی حنیف عبد المجید صاحب اس فانی دنیا کی قید سے راحت پاگئے۔
موت کا وقت تو طے ہے، مگر بعض شخصیات اس قدر ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہوتی ہیں کہ ان کی وفات پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید قوم کی مجموعی ناقدری کے سبب اللہ تعالی نے اس عظیم نعمت کو ہم سے واپس لے لیا ہو۔
مفتی صاحب نے اپنی کم مدت حیات میں جو بے مثال خدمات انجام دیں وہ انسانی عقل کو دنگ کردیتی ہیں ، انہوں نے اپنی خدمات کا ایک ایسا وسیع جال بچھایا جو پورے ملک پر محیط ہے اور ہر کام اپنی جگہ بھرپور وسعت اور جامعیت کا حامل ہے۔
آپ ذرا اندازہ لگائیے!
ایک آدمی ہے ، لیکن: مدرسہ بیت العلم کا درس نظامی ہو یا حفظ قرآن کریم کا شعبہ ، البدر اسلامک اسکولنگ سسٹم کی بنیاد ہو ، یا مکتب تعلیم القرآن کا فروغ ، اشاعتی ادارہ مکتبہ بیت العلم کے ذریعہ علم کی اشاعت کی بے لوث کاوشیں ہوں ، یا سماجی معاشرتی اور گھریلوں زندگی کے موضوعات پر ان کی شہرہ آفاق گرانقدر تصنیفات ھوں یا بچوں کے ادب کے حوالہ سے بہترین کتابیں ، یا عصری نصاب تعلیم میں ان کی خدمات ، یہ ایک جان نہیں بلکہ پورا جہاں ہے ، اور اس سب کے ساتھ انہوں نے اپنی ذات کے لیے کچھ نھیں کیا ، ان کے یہ سب کام ، بلکہ ان کے تحت تمام ادارے، تمام خدمات وقف کی اعلی ترین مثال ہیں۔
ان تمام ظاہری خدمات کے علاوہ ان کی بہت سی ایسی کاوشیں بھی ہیں جو ابھی عام لوگوں سے گوشۂ خفا میں ہیں اور جن کا اجر صرف اللہ کے ہاں محفوظ ہے۔
مفتی حنیف صاحب کی شخصیت اور خدمات پر بہت کچھ لکھا جائے گا ، لیکن سردست ان کی شخصیت اور زندگی کا ایک اہم سبق آموز اور حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ انہوں نے ان تمام عظیم الشان خدمات میں اپنی ذات اور شخصیت کو مکمل گمنامی اور کمال انکسار میں رکھا۔
یہ وہ دور ہے جہاں اچھے خاصے پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ بھی یقین کے ساتھ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اس زمانے میں میڈیا ، کیمروں کی چکاچوند اور تصویری مہم کے بغیر شاید کوئی بڑا دینی کام ممکن ہی نہیں۔
مفتی صاحب نے شہرت، نمائش اور خود نمائی کے تمام وسائل سے دُوری اختیار کر کے اپنے اخلاص اور عمل سے ان تمام واہموں اور مفروضوں کو یکسر مسترد کر دیا، انہوں نے صرف اللہ کی رضا کے لیے اتنے بڑے بڑے اور دیرپا کام انجام دیے کہ انسان کا سر عقیدت سے جھک جاتا ہے۔
مفتی حنیف صاحب جامعہ بنوری ٹاؤن کے باکمال فاضل اور ان ابناء جامعہ میں سے تھے جو اپنی ذات اور خود سے وابستہ تمام خدمات کو اپنے اساتذہ کا فیض اور جامعہ کی تربیت کا ثمر گردانتے تھے ، حضرت بنوری رحمہ اللہ نے جو چراغ روشن کیا انہوں نے اسے بحسن و کمال آگے پہنچایا اور اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ نایاب لوگ شہرت کے متقاضی نہیں ہوتے:
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں، نایاب ہیں ہم
اے اہلِ زمانہ! قدر کرو، نایاب نہ ہوں، کم یاب ہیں ہم
ان کی خاموش، پردے میں رہ کر کی گئی خدمات درحقیقت ہم سب کے لیے ایک عملی دلیل اور روشن چراغ ہیں کہ اخلاصِ نیت، سچی محنت اور رب پر توکل ہی اصل کامیابی کا راز ہے، نہ کہ دنیاوی شہرت اور تعریف
اللہ تعالیٰ مفتی حنیف عبد المجید صاحب کی خدمات کو قبول فرمائے، انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور پسماندگان و متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے، اور ان کے لگائے ھوئے گلستانوں کو شاد و آباد رکھے ، آمین ۔

