کراچی : پروفیسر نیک محمد شیخ کو بغیر این او سی لاڑکانہ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے ۔ انٹیلی جنس بیورو نے اس پر اعتراض اٹھاتے ہوئے محکمہ داخلہ کو خط لکھ دیا ہے ۔
ایجوکیشن نیوز کو حاصل دستاویزات کے مطابق یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے سیکریٹری عباس بلوچ کی یہ ’’ہوشیاری‘‘ صوبائی وزیر اسماعیل راہو کے لیے دردِ سر بن گئی ہے ۔ آئی بی کی جانب سے سیکیورٹی کلیئرنس نہ ملنے کے باوجود نیک محمد شیخ کو لاڑکانہ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے ۔
یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تقرری کے لیئے سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے چیئرمین تین امیداروں کے نام شارٹ لسٹ کیئے جاتے ہیں ، جس کے بعد یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے سیکریٹری تینوں امیدواروں کی کلیئرنس کے لیے آئی ایس آئی اور آئی بی کو مراسلہ ارسال کرتا ہے ۔

تاہم یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے سیکریٹری نے بغیر این او سی پروفیسر نیک محمد شیخ کو وائس چانسلر مقرر کر دیا ہے ۔ جس پر آئی بی نے اعتراض کرتے ہوئے محکمہ داخلہ کو خط لکھا ہے ۔ صورت حال سنگین ہوتے ہی یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نے ہنگامی بنیادوں پر وزیرِ اعلیٰ سندھ کو دوبارہ خط لکھ کر اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا ہے ۔
وزیرِ اعلیٰ نے بورڈز ڈپارٹمنٹ کو حکم دیا کہ وہ محکمہ داخلہ کے ذریعے آئی بی سے اعتراض کی وضاحت حاصل کرے ، انٹیلی جنس بیورو کی جانب سے کلیئرنس نہ ملنے کے باوجود نیک محمد شیخ بدستور وائس چانسلر کے عہدے پر موجود ہیں ۔ حالانکہ قانون کے مطابق وہ کلیئرنس کے بغیر کام نہیں کر سکتے۔

واضح رہے کہ سندھ ہائرایجوکیشن کمیشن نے لاڑکانہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے لیے نیک محمد شیخ ، ڈاکٹر امام الدین کھوسو اور سید منیر احمد شاہ کے نام شارٹ لسٹ کر کے یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے سیکریٹری کو بھجوائے تھے ۔ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے سیکریٹری عباس بلوچ نے حساس اداروں کی کلیئرنس ملنے سے پہلے ہی پروفیسر نیک محمد شیخ کو وائس چانسلر مقرر کر کے قانون کی صریح خلاف ورزی کی ہے ، جس سے صوبائی وزیر اسماعیل راہو کی پریشانی میں بھی اضافہ ہو گیا ہے ۔ اس حوالے سے صوبائی وزیر برائے بورڈ اینڈ جامعات اسماعیل راہو سے رابطہ کیا گیا تاہم ان کا موقف سامنے نہیں آ سکا ہے ۔

