بلاگ : آصف محمود
جب سردیاں آتی ہیں تو سردیوں کی چھٹیاں ختم ہو چکی ہوتی ہیں۔ چنانچہ ہم سردیوں کی چھٹیاں بڑھا دیتے ہیں۔ لیکن ہم یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ ہم سردیوں کی چھٹیاں سردی کا زور پڑھنے سے پہلے کیوں کرتے ہیں؟
کمپنی بہادر (ایسٹ انڈیا کمپنی) بھی قصہ ماضی ہو گئی اور بر صغیر میں برطانوی راج بھی ختم ہو گیا لیکن ہم ایک وفادار رعایا کی طرح نو آبادیاتی آقائوں کے بندو بست پر اندھے، بہرے اور گونگے ہو کر یوں عمل پیرا ہیں گویاہمیں یہ خوف ہو کہ ہم نے اس نو آبادیاتی بندوبست میں کوئی تبدیلی کر لی تو ہمیں عبور دریائے شور کی سزا سنا دی جائے گی۔
سردیوں کی جو چھٹیاں ہمارے ہاں تبرک سمجھ کر ’ عین وقت پر‘ کی جاتی ہیں یہ یہ اصل میں نو آبادیاتی چھٹیاں ہیں۔ یہ مقامی تعطیلات نہیں ہیں ، یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی چھٹیاں ہیں۔
ان کا آغاز 1843 میں بمبئی ریزیڈنسی سے اس وقت کے برٹش گورنر جارج آرتھر کے حکم پر ہوا۔
یہ صاحب یہاں گورنر تعینات ہوئے تو یہ کمپنی بہادر کے اقتدار کی شروعات تھیں۔ ہندوستان ابھی ان کے زیر تسلط نہیں آیا تھا مگر اس کے ابتدائی نقوش واضح ہونا شروع ہو گئے تھے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کی ان چھٹیوں کا سردیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ برطانیہ سے بر صغیر آنے والے اہلکاروں کے لیے یہاں کی مقامی سردی سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھی۔وہ سرد علاقے سے آئے تھے اور ہندوستان کی سردی ایسی نہ تھی کہ وہ اس سے گھبرا کر چھٹیاں کرنے پر مجبور ہوتے۔ مسئلہ کچھ اور تھا۔
برطانوی افسران کی سال کے آخر میں دو مصروفیات ہوتی تھیں۔ ایک کرسمس اور دوسری نئے سال کی۔ چنانچہ گورنر جارج آرتھر نے حکم دیا کہ چھٹیاں اس طرح سے کی جائیں کہ دونوں تقاریب کا آرام اور سکون سے انعقاد ممکن ہو سکے۔چنانچہ یہ چھٹیاں 23 دسمبر سے شرع ہوتیں تا کہ کرسمس کی تیاری کے لئے بھی ایک آدھ دن مل جائے اور یہ چھٹیاں یکم جنوری تک ہوتیں تا کہ ’ ہیپی نیو ایئر ‘ بھی منایا جا سکے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی ختم ہو گئی ، برطانوی اقتدار بھی قصہ ماضی ہو گیا۔ نئے ملک بن گئے۔ پاکستان نام کا ایک آزاد ملک وجود میں آ گیا لیکن ہماری افسر شاہی آج بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے پونے دو سو سال پرانے ضابطے پر صدق دل سے عمل پیرا ہے۔دسمبر کے آخری ہفتے میں سردی ہو یا نہ ہو چھٹیاں ہم نے جارج آرٹھر کے فارمولے کے تحت ہی کرنی ہیں۔
چنانچہ جب’’سردیوں کی ‘‘چھٹیاں ختم ہو جاتی ہیں تو سردیاں آ جاتی ہیں اور جب سردیاں آ جاتی ہیں تو افسر شاہی ایک نیا حکم نامہ جاری کر دیتی ہے کہ چونکہ اب سچ مچ کی سردی آ گئی ہے اس لیے ہم چھٹیوںمیں اضافہ کر رہے ہیں۔
لیکن یہ اضافے والی گستاخی بھی ہر جگہ نہیں ہو پاتی۔ چنانچہ پنجاب میں تو تعطیلات میں اضافہ کر دیا گیا لیکن سوات وغیرہ میں چھٹیوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ بچوں کے والدین احتجاج اور مطالبہ کرتے رہ گئے کہ سردی شدید ہے اس لیے بچوں کی چھٹیوں میں اضافہ کیا جائے لیکن بیوروکریسی نے زبان حال سے جواب دیاکہ تمہارے بچے یخ بستہ سکولوں میں ہیٹر سے محروم ماحول میں بیمار ہوتے ہیں تو ہماری جانے بلا ، چھٹیاں تو ہم نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے سر جارج آرتھر صاحب بہادر کے فارمولے کے تحت ہی کرنی ہیں۔
مذید پڑھیں : لاہور : موسم سرما کی تعطیلات مذید دو ہفتے بڑھانے کا حکم
یہی معاملہ گرمیوں کی چھٹیوں کا ہے۔یہاں کی گرمی انگریز افسر شاہی کے لیے تکلیف دہ ہوتی تھی۔بیوروکریسی میں بھی انگریز تھے اور جج تو قریب سارے ہی انگریز تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ہم اس گرمی میں یہاں کام نہیںکر سکتے۔چنانچہ کمپنی بہادر نے ان کے لیے گرمیوں کی چھٹیاں تجویز کر دیں۔
اب معاملہ یہ تھا کہ برطانوی ججز کو گرمی کی چھٹیوں میں برطانیہ جانا اور واپس آنا پڑتا اور یہ دورانیہ ظاہر ہے کہ طویل ہوتا۔بحری جہاز سے آنے جانے میں کافی وقت لگتا ۔ تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہ فیصلہ کیا کہ انہیں تین ماہ کی چھٹیاں دی جائیں تاکہ ایک ڈیڑھ ماہ آنے جانے میں لگ جائے اورایک ڈیڑھ ماہ وہ برطانیہ میں قیام کر سکیں۔
گرمیوں کی تعطیلات کا یہ دورانیہ بعد میں پاکستان میں بھی نافذ العمل ہو گیا اور اعلی عدلیہ میں تعطیلات دو تین ماہ ہی ہوتی ہیں۔ اگر چہ ان تعطیلات میں عدالت بالکل بند تو نہیں ہوتی لیکن بہر حال چھٹیوں کا دورانیہ یہی ہوتا ہے۔
بچوں کے تعلیمی اداروں میں گرمیوں کی تعطیلات سمجھ میں آتی ہیں لیکن جہاں دفاتر میں اور حتی کہ راہ داریوں میں بھی ائر کنڈیشن کام کرتے ہوں وہاں ان نو آبادیاتی تعطیلات کا کوئی جواب سمجھ سے باہر ہے۔
ہمیں سوچنا ہو گا کہ تعطیلات کو اپنے مقامی تقاضوں ا ور ضروریات سے ہم آہنگ کریں۔ ضروری نہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے آج سے ڈیڑھ پونے دو سو سال قبل جو کر دیا اسی کو معیار حق اور آخری آفاقی صداقت سمجھ کر قبول کر لیا جائے۔
ہمیں نو آبادیاتی دور کی اس نفسیاتی گرہ کو کھولنا ہو گا۔ ہم ایسٹ انڈیا کمپنی کی رعایا نہی ہیں۔ اب ہم ایک آزاد ملک کے شہری ہیں۔ نو آبادیاتی دور کی کوئی چیز اگر ہمیں درست لگتی ہے تو اس کو باقی رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن کسی چیز کو محض اس لیے غلامی کا طوق بنا کر گلے میں ڈال لینا کوئی دانش مندی نہیں کہ یہ کمپنی بہادر کا ورثہ ہے۔
برطانوی نو آبادیاتی دور میں جہاں ہمیں غلامی کے آداب سکھانے کے لیے ’’ انگلش ایٹی کیٹس فار انڈین جنٹلمن‘‘ جیسی کتابیں لکھی گئیں وہیں ان آداب غلامی پر مکمل دل جمعی سے عمل پیرا ہونے والی رعایا کے لیے ’’ اچھے مسلمان‘‘ کی اصطلاح وضع کی گئی۔برطانوی راج ختم ہو گیا لیکن ہمارے فیصلہ سازوں میں آج بھی’’ سلطنت برطانیہ کا وفادار اور اچھا مسلمان ‘‘ بننے کا گویا ایک مقابلہ سا جاری ہے۔
اس تماشے کو اب ختم ہونا چاہیے۔اب ہم آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں۔ قانون سے سے کر انتظامی معاملات تک ہم انہی روایات کے قیدی بن کر رہ گئے ہیں جو برطانوی نو آبادیاتی دور میں ہم پر مسلط کی گئیں۔ ایسی خود سپردگی کا تو شاید خود برطانیہ نے تصور نہیں کیا ہو گا۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ کوئی مسلمان اپنی تہذیبی روایات سے جڑنے کی بات کرتا ہے تو اسے قدامت پسند ی کا طعنہ دیا جاتا ہے لیکن ادھر یہ حال ہے کہ سوچے سمجھے بغیر برطانوی نو آبادیاتی دور کی روایات پر آنکھیں بند کر کے عمل کیا جا رہا ہے۔بدلنا تو دور کی بات ہے کوئی اس پر بات تک نہیں کرتا کہ افسر شاہی ہمیں کس غلامی کے ڈنڈے سے ہانک رہی ہے۔
ایک آزاد ملک کو یہ رویہ زیب نہیں دیتا۔ پاکستان میں ہر سطح پر اس احساس کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری فیصلہ سازی کمپنی بہادر کی روایات کے مطابق نہیں ہونی چاہیے بلکہ فیصلہ سازی کا تعین ہماری مقامی ضروریات اور تہذیبی رووایات کی روشنی میں ہونا چاہیے۔
وارفتگی کا عالم یہ ہے کہ جارج آرتھر کی چھٹیاں تو پوری کی پوری دی جاتی ہے لیکن عید الفطر اور عید الاضحی پر صرف دو تین چھٹیاں دی جاتی ہیں۔غلامی اور کسے کہتے ہیں؟
بشکریہ : ترکش | روزنامہ 92 نیوز