رپورٹ : ضیا چترالی
وہ ایک جامع مسجد کا امام بھی ہے اور بین الاقوامی فٹ بالر بھی۔ اسے بیک وقت تین ٹیموں کی نمائندگی کے لیے آفر آئی۔ ہالینڈ، مراکش اور لیبیا۔ لیبیا اس کے والد کا اور مراکش ماں کا وطن ہے۔ جب کہ وہ خود ہالینڈ کا باشندہ۔ اس نے ماں کی خاطر مراکش کی ٹیم میں شمولیت کو ترجیح دی۔ یہ ہیں نوجوان قاریٔ قرآن زکریا ابوخلال۔
انہوں نے 2000ء میں ہالینڈ کے ایک دیندار گھرانے میں جنم لیا۔ وہ مختلف کلبوں کی نمائندگی کرتے رہے اور بالآخر ہالینڈ کی قومی ٹیم کا بھی حصہ بنے۔ لیکن نومبر 2020ء میں وہ مراکشی ٹیم میں شامل ہوئے اور افریقی کپ کے دوران پہلا میچ کھیلا۔ یہ نوجوان ابھرتا ہوا بہترین اسٹرائیکر ہے۔ مراکش کے ساتھ پہلے میچ میں ہی اس نے سینڑل افریقہ کے خلاف اپنا پہلا گول اسکور کیا۔ اسی دن (10 نومبر) کو اسے مراکشی کوچ ولید الركراكی نے ورلڈ کپ کے 26 رکنی اسکواڈ میں شامل کیا۔ اس عالمی ایونٹ میں ابوخلال نے بلجیم کے خلاف پہلا گول داغا۔ یہ میچ مراکش نے 2 زیرو سے جیت لیا۔ 22 سالہ ابوخلال بڑے دیندار نوجوان ہیں۔ وہ ہالینڈ میں ایک مسجد کے امام ہیں اور قرآن کریم بہت اچھا پڑھتے ہیں۔ ان کی تلاوت کی ویڈیوز عرب سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔
انہوں نے ہی فیس بک لائیو میں مراکشی ٹیم کے غیر مسلم پرستاروں کو اسلام کی دعوت دی تھی۔ جب کہ کوارٹر فائنل میں اسپین کے ساتھ پینالٹی میں جانے سے قبل سورۃ فاتحہ کی تلاوت بھی ابو خلال نے کی تھی۔ عرب میڈیا کے مطابق میچ کے بعد ٹیم کو سجدے کرنے کا مشورہ بھی ابو خلال نے ہی دیا تھا۔ مراکشی ٹیم میں سب سے پہلا سجدہ بھی انہوں نے بلجیم کے خلاف میچ میں گول کے بعد کیا تھا اور اختتام پر ساتھیوں کو بھی سجدے کی دعوت دی اور وہ ابو خلال کے ساتھ سجدے میں شریک ہوئے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری رہا۔ حتیٰ کہ سیمی فائنل کا میچ ہارنے کے باوجود بھی مراکشی ٹیم کے کھلاڑی رونے دھونے کے بجائے سجدے میں گر گئے۔ اس منظر نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔
ابو خلال کی ایک اور ویڈیو بھی وائرل ہے۔ جس میں ٹیم کے ساتھی گانے سنتے ہیں۔ مگر امام صاحب اس میں شمولیت سے انکار کر دیتے ہیں۔ یہ ابوخلال ہی تھے، جنہوں نے فلسطینی پرچم اوڑھ کر شہادت کی انگلی اٹھا کر پوز دیا تھا۔ یہ تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور مغرب کے متعصب ذرائع ابلاغ نے اس بنیاد پر ابوخلال کو داعشی قرار دیا۔ ابو خلال حتی المقدور اسلامی احکام پر کاربند ہیں۔ وہ گرائونڈ میں اترنے سے قبل باقاعدہ دعا مانگتے ہیں۔
مزید پڑھیں :ایک ہزار ایک قرآن کریم کا ختم مگر کیسے ؟
ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ میرا مقصد حیات نہ دولت کا حصول ہے، نہ شہرت کی طلب۔ بس میں ایمسٹرڈیم میں ایک بڑا اسلامی مرکز بنانا چاہتا ہوں، جہاں دین کی دعوت کے ساتھ محتاجوں کی مدد بھی ہوگی۔ ورلڈ کپ کے دوران ابوخلال ایک بار اپنی بیوی کے ساتھ بھی میڈیا کے سامنے آئے۔ چونکہ ان کی اہلیہ مکمل پردے میں تھی۔ اس لئے یہ ویڈیو بھی وائرل ہو گئی۔
ابوخلال اس وقت فرانسیسی کلب تولوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس کلب نے 6 لاکھ یورو میں ان کی خدمات حاصل کی ہیں۔ یہ اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ یتیموں پر خرچ کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک یتیم خانے بھی بنایا ہے اور ساتھ یتیموں کے لیے ایک فٹ بال گرائونڈ بھی۔ یہ صرف ابوخلال نہیں، مراکش کی پوری ٹیم نے مسلمانوں کا حقیقی اور خوبصورت چہرہ دنیا کے سامنے روشناس کرایا ہے۔ یہ کھلاڑی گرل فرینڈز کے بجائے مائوں کو لے کر اسٹیڈیم آتے ہیں اور جیتنے پر سب سے پہلے مائوں کے قدموں میں پہنچتے ہیں۔
مراکشی اسٹار اشرف حکیمی کا کہنا ہے کہ اسپین نے مجھے اپنی نیشنل ٹیم میں شامل کرنے پر بڑا زور لگایا۔ اگرچہ میں ہسپانوی شہری ہوں، لیکن بطور مسلمان اسپین کے ساتھ کھیلنا مناسب نہیں سمجھا، اس لئے وطن اصلی مراکش کی ٹیم کو جوائن کیا۔ حکیمی دنیا کا سب سے بہترین رائٹ بیگ ہے۔ اسے فرنچ کلب پیرس سینٹ جیرمان نے 2026ء تک کے لیے 60 ملین یورو کا لیا ہے۔ نہایت غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ ماں نے دوسروں کے گھروں برتن دھوکر اسے پالا پوسا۔ اس لئے حکیمی ہر میچ جیتنے کے بعد کوچ سے بھی پہلے ماں کے پاس میں پہنچتا ہے۔ ایک اور اسٹار سفیان بوفال ہے۔ پرتگال سے میچ جیتنے کے بعد اس نے گرائونڈ میں ماں کے ساتھ جشن منایا۔ اس کی تصویر اور ویڈیو دنیا بھر میں مشہور ہو گئی۔
سفیان سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ آپ ماں کو اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں؟ کہنے لگے کہ میری ماں نے بہت مشقت برداشت کر کے میری پرورش کی ہے۔ رات دن محنت کرکے میری تعلیم کے ساتھ کھیل کی تربیت کے اخراجات پورے کرتی رہیں۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب میری عمر 18 برس ہوئی اور میں باقاعدہ کلب کا حصہ بن گیا۔ اس کے ساتھ دینی تربیت بھی دی۔ اس لئے میرے لیے سب کچھ ماں ہے۔ انہی کی تربیت کا نتیجہ کہ فرانس جیسے ملک میں رہتے ہوئے بھی میں مروجہ خرابیوں سے دور ہوں۔ ہر میچ سے پہلے قرآن کی تلاوت اور صلوٰۃ الحاجت کی دو رکعت پڑھ کر میدان میں اترتا ہوں۔
واضح رہے کہ سفیان فرانس میں پیدا ہوئے اور فرنچ لیگLigue 1 کے کلب Angers سے وابستہ ہیں۔ مراکش کے ایک اور نامور کھلاڑی حکیم زیاش ہیں۔ گزشتہ رمضان میں ہم نے ان کے بارے میں لکھا تھا۔ اس دوران زیاش اور ان کے کوچ کا یہ مکالمہ مشہور ہوا تھا: ”میں تو روزہ رکھوں گا۔“ ”نہیں بھائی! اہم میچز ہیں، آپ کی کارکردگی متاثر ہوگی۔“ ”کچھ بھی ہو، روزہ تو نہیں چھوڑ سکتا۔“ چنانچہ زیاش نے روزہ رکھ کر میچ کھیلا اور انہی کے گول سے ٹیم نے میچ جیتا، بلکہ FA Cup یعنی Football Association Challenge Cup کے فائنل رائونڈ میں بھی پہنچ گئی۔
مزید پڑھیں : جامعہ الدراسات الاسلامیہ میں امام کعبہ حافظ عبدالرب بن فیض اللہ کی آمد
حكيم زياش بھی ڈچ شہری ہیں، اصل تعلق مراکش سے۔ یہ واحد کھلاڑی ہے، جسے 2018 کے ورلڈ کپ میں اختیار دیا گیا تھا کہ وہ چاہیں تو ہالینڈ کی طرف سے کھیلیں اور چاہیں تو مراکش کی نمائندگی کریں۔ انہوں نے مراکش کو ترجیح دی۔ زیاش نے 2012 میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا، دو برس ہالینڈ کے ایک کلب کی طرف سے کھیلتے رہے، پھر 2015 میں نیدر لینڈ لیگ میں انہوں نے بہترین کارکردگی دکھا کر 17 گول کئے تو ملک کے مشہور کلب ایاکس نے 11 ملین یورو پر ان کے ساتھ 5 سالہ معاہدہ کیا۔ اِس وقت یہ مشہور انگلش کلب چیلسی Chelsea کی طرف سے کھیلتے ہیں۔ زیاش نے حالیہ ورلڈ کپ ایونٹ کے دوران ملنے والے 3 لاکھ 25 ہزار ڈالرز غریب لوگوں میں بانٹ دیئے ہیں۔
مراکش سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی خالد بیدون نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کیے گئے سلسلہ وار ٹوئٹس میں لکھا ہے کہ حکیم زیاش 2015 سے مراکش کے لیے فٹ بال کھیل رہے ہیں، لیکن انہوں نے ایک روپیہ بھی نہیں لیا ہے۔ خالد بیدون کا کہنا ہے کہ حکیم زیاش اپنی تنخواہ آبائی علاقے کے غریب لوگوں اور اپنی ٹیم کے عملے میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ ہمیں کھیلوں سے زیادہ دلچسپی نہیں۔ لیکن ورلڈ کپ جیسے دنیا کے سب سے بڑے میلے میں مراکشی ٹیم کی کارکردگی نے دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ اہل اسلام کی حقیقت کیا ہے اور طاغوت نے پروپیگنڈا کر کے ان کے خوبصورت چہرے کو دہشت و وحشت سے جوڑ کر کیسے بدنما کر کے پیش کیا ہے۔ جبکہ کھیل میں بھی انہوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ پہلی دفعہ کوئی مسلم ٹیم سیمی فائنل تک پہنچی۔ بلکہ حقیقت میں فائنل تک بھی پہنچ چکی تھی۔
کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ مراکش کو سیمی فائنل میں جان بوجھ کر ہرایا گیا۔ چنانچہ میکسیکو سے تعلق رکھنے والے فیفا کے ایک سابق ریفری کا الجزیرہ سے بات چیت میں کہنا ہے کہ کم ازکم دو یقینی فری ککس کا موقع مراکش کو نہیں دیا گیا۔ باقی شروع سے آخر تک میچ پہ وہ مکمل حاوی رہے۔ فیفا کے مطابق اس میچ میں فرانس کے 38 فی صد کے مقابلے میں مراکش نے 62 فی صد وقت تک گیند کو اپنے قبضے میں رکھا اور حریف ٹیم کے 364 پاسز کے برعکس افریقی ٹیم کے پاسز کی تعداد بھی 572 تھی۔ نصف سے زیادہ دورانئے تک گیند فرانس کے پول کی سائیڈ پہ رہی۔ یوں اطلسی شیر حریف پہ مکمل طور پر حاوی رہے۔ اس کے ساتھ قطر نے بھی اس داغ کو دھونے کا بھرپور اہتمام کیا ہے۔ شائقین فٹ بال کی ایسی مہمان نوازی کہ وہ حیرت میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ شائقین میں گفٹ تقسیم کرتے چند بچوں کی ویڈیو نظر سے گزری۔
ایک عرب صحافی اور ان بچوں میں دلچسپ مکالمہ ہوتا ہے۔ صحافی پوچھتا ہے کہ یہ آپ کیا چیز تقسیم کر رہے ہیں؟ بچے کہتے ہیں کہ یہ بسکٹس اور مٹھائیاں ہیں۔ ’’کیوں؟ کس لئے؟‘‘ ’’تاکہ شائقین فٹ بال اسلام میں داخل ہوں۔‘‘ ’’وہ کیسے؟‘‘ ’’یہ دیکھئے، اس کے ہر پیکٹ پہ ایک بار کوڈ درج ہے، اس کی مدد سے اسلام کے متعلق جامع معلومات اور مکمل تعارف حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘‘ ایک اور ویڈیو میں مہمان نوازی کی روایت قائم کرنے والے بزرگ (سیدنا ابراہیم علیہ السلام) کی اولاد، قطری بچے غیر ملکیوں کا استقبال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ ثمامہ اسٹیڈیم سے واپس آنے والے فٹ بال تماشائی ہیں اور قطری بچے جوسز، پانی اور روایتی ڈشز سے ان کی تواضع کر رہے ہیں۔ دنیا نے 22 بار ورلڈ کپ کے ایونٹس دیکھے ہیں۔ ہر میزبان ملک مہمان تماشائیوں کو لوٹتا رہا۔ شائقین فٹ بال کا پہلی بار عجیب میزبانوں سے واسطہ پڑا ہے۔ بچے، بوڑھے اور جوان، سب بچھے جا رہے ہیں۔ ایک اور منظر میں اسٹیڈیم کے باہر دین حنیف کے داعی طلبہ کا اسٹال لگا ہوا ہے۔ لکھا ہے کہ ’’ہر چیز آپ کے لئے گفٹ‘‘ وہ عربی قہوہ، کھجور کے ساتھ روایتی قطری حلوہ، ساتھ رومال، عقال اور بشت (جبہ) کے تحائف کی تقسیم کرتے ہیں۔ مردوں کے ساتھ خواتین بھی اس مشن میں شانہ بشانہ شریک ہیں۔
روضة الحمام قطر کا ایک گاؤں ہے۔ یہاں کی خواتین نے ورلڈ کپ کو دعوتِ دین کا سنہرا موقع جانتے ہوئے غیر ملکی خواتین شائقین کی میزبانی کا پروگرام شروع کر رکھا ہے۔ مختلف ممالک کی خواتین آتی اور قطری میزبانوں کی ضیافت سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ دین حق کی معرفت بھی حاصل کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ اسٹیڈیمز کے باہر بھی خواتین کے کیمپ لگے ہوئے ہیں اور وہ بغیر کسی احساس کمتری کے مسلم تہذیب و ثقافت کی پرچار کرتے دکھائی دیتی ہیں۔ باقی دین کی دعوت اور فلسطینی مسئلے کو اجاگر کرنے سمیت اس ورلڈ کپ کے مختلف مثبت پہلوئوں پر ہم پہلے بات کرچکے ہیں۔