ہفتہ, نومبر 16, 2024
صفحہ اولبلاگایڈمن کی ڈائری کا اختتام کر دیا گیا

ایڈمن کی ڈائری کا اختتام کر دیا گیا

تحریر : زاہد احمد 

(ایڈمن کی ڈائری اور ”ہیمر“ ٹوٹ گیا ۔ ۔ ۔ ہم جس جہاں کے باسی ہیں ، یہ”جہان ِفانی“ ہے یہاں سب کچھ فنا ہو جانا ہے ۔ خواہ وہ جمادات ہو کہ نباتات یا حیوانات ، سب فانی ۔۔۔۔ ” کُل ِ نفسٍ ذاٸقة الموت“ اس لٸے میرے جیسے عام آدمی کا مرجانا کوٸی غیر معمولی واقعہ نہیں ہو گا اور نہ ہونا چاہٸیے ۔ چند دوست ”سوشل میڈیا“ پر ایک تحریر پوسٹ کرینگے اور کچھ دوست اس پر اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرتے ہوٸے ”دعاٸے مغفرت“ فرما دینگے اور بس پھر اپنی اپنی دنیا میں مگن ہونگے ۔

میں نے اپنی ذات کے حوالے سے ایک بھرپور ، متحرّک اور مصروف زندگی گزاری ۔ میری زندگی کے بتّیس ، تینتیس سال شعبہ ٕ تعلیم کے نام بھی رہے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں زندگی میں اپنے فراٸض ِ منصبی کماحقُہ ادا کر سکا یا نہیں مگر میری کوشش ہمیشہ یہی رہی کہ میں اپنے فراٸض ِمنصبی دیانتداری سے ادا کرتے ہوٸے اپنے بچّوں کی پرورش حلال رزق سے کرسکوں ، سو میں کوشاں رہا ، حتّٰی کہ : ”مٹّی کے محبّت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض چکاٸے جو واجب بھی نہیں تھے“ ڈھاٸی ، تین سال قبل سوشل میڈیا کی اہمیت و افادیت کو مدّنظر رکھتے ہوٸے واٹس ایپ پر ”دی ہیمر“ 🔨 کے نام سے گروپ ترتیب دیا جس پر ”ایڈمن کی ڈاٸری“ کے عنوان کے تحت ، تعلیم ، تعلیمی نظام اور اساتذہ ٕ کرام سے متعلق عمومی اور ”کالج ایجوکیشن“ کے حوالے سے بالخصوص اپنی نگارشات پیش کرتا رہا جسے دوستوں کی پسندیدگی اور پذیراٸی بھی حاصل رہی اور بڑی تعداد میں دوستوں نے اس گروپ میں شمولیت اختیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا .

لہٰذہ ، ”دی ہیمر“ 🔨گروپ ٢ بھی تشکیل دینا پڑا ۔ اس گروپ پر مجھ ناچیز کی جانب سے مختلف امور کے ضمن میں اساتذہ کرام کی رہنماٸی ، تعلیم ، تعلیمی اداروں ، طلبا ٕ اور اساتذہ ٕ کرام کو درپیش مساٸل اور انکے حل کو بطور ِخاص موضوع بنایا جاتا رہا ۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ میری ساری کاوشیں ”صدابہ صحرا“ اور ”نقّارخانے میں طوطی کی آواز“ ہی رہیں ۔

ذاتی زندگی میں نے سادہ مگر صحتمند بسر کی اور الحَمْدُ ِلله کبھی کسی بڑی بیماری کا شکار نہ ہوا ، اپنی صحت کے حوالے سے میں ہمیشہ محتاط رہا ۔ گزشتہ تیس سال سے بیف ، مٹن ، انڈہ ، مکھّن اور ایسی دیگر مرغّن غذاٶں سے حتّی المقدور پرہیز کرتا رہا جو امراض ِ قلب کی وجہ بن سکتی ہیں ، سبزیاں اور پھل میری غذا کا بڑا حصّہ رہے ۔ کبھی پان سگریٹ کے قریب نہیں گیا ، پُر تعیّش زندگی گزارنے سے گریزاں رہا ، منحنی سے جسم کے ساتھ روزانہ میلوں پیدل چلنا میرا معمول رہا ، بلند عمارتوں میں لفٹ کی جگہ سیڑھیوں سے چڑھنے کو ترجیح دیتا رہا ، مجھے چلنے پھرنے میں کبھی دشواری نہیں ہوٸی ، ابھی کچھ ہی عرصے قبل میں نے ”غار حرا“ تک بلا تھکاوٹ یا دشواری بہت آسانی سے رساٸی حاصل کی ، مجھے ربّ نے ذیابیطس یا بلند فشار ِخون جیسے امراض سے بھی محفوظ رکھا ہوا تھا ۔

مذید پڑھیں : انجمن اساتذہ جامعہ کراچی کے وفد کی جامعہ اردو اساتذہ احتجاج میں شرکت

الغرض طبّی ماہرین کے طے کردہ اصولوں اور ضابطوں کے تحت مجھے دنیا کا آخری شخص ہونا چاہٸیے تھا جسے ”دل کا مرض“ لاحق ہو سکتا تھا مگر میرے ربّ کی مرضی و منشا ٕ کے سامنے تمام ماہرین ِ طبّ کے اصول و ضابطے دھرے کے دھرے رہ گٸے اور گزشتہ منگل صبح نو بجے مجھے دل کا ایسا شدید دورہ پڑا جس کے متعلق ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اس شدّت کے دورے کے بعد میرا زندہ بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں ۔ میرا علاج جاری ہے ، میری چند روز بعد ”اوپن ہارٹ باٸی پاس“ سرجری ہونی ہے ۔

”سیکینڈ اینڈ تھرڈ اوپینین“ لینے پر ڈاکٹرز کی یہ راٸے سامنے آٸی ہے کہ میرے دل کی کیفیت خاصی تشویش ناک ہے اور سرجری کی تاریخ تک پہچنا بھی ایک چیلنج بن گیا ہے ۔ میں نے اپنی زندگی کا بڑا حصّہ محکمہ ٕ تعلیم میں تدریسی و انتظامی مناصب پر خدمات سرانجام دیتے گزارا اس دوران میرا بلامبالغہ ، سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں افراد سے رابطہ اور واسطہ رہا ، بڑی تعداد میں اشخاص سے شناساٸی اور دوستی بھی ہوٸی ، جن میں سے ایک بڑی تعداد میں دوست ،احباب کو میری بیماری کی اطلاع بھی ہے ، کچھ دوستوں ، ساتھیوں اور بہی خواہوں نے میری بیماری کے دوران میرے اہلخانہ سے اور مجھ سے فون پر اور سوشل میڈیا پر رابطہ کر کے میری خیریت دریافت کی جن کا میں تہہ ِدل سے شکر گزار ہوں ۔

دوران ِ علاج گورنمنٹ کالج فارمین ناظم آباد کے ساتھیوں پروفیسر ایس ایم سعید ، پروفیسر ڈاکٹر طارق جاوید اور ایس آر اے مجید کالج کی پروفیسر نصرت وحید نے اسپتال تشریف لاکر میری مزاج پُرسی کی ، ان کا بھی میں شکرگزار ہوں ۔ البتّہ میری نظریں ان قریبی دوست احباب کے دیدار کی منتظر رہیں ، جن پر مجھے مان تھا کہ یہ احباب مجھ سے ملنے ضرور تشریف لاٸینگے ۔

بہرحال میرے دست ِ دعا سب کے لٸے اپنے ربّ کے آگے بلند ہیں اور رہینگے ۔ آج صبح جب میں نے واٹس ایپ کھولا اور دیکھا کہ میرے ایک دیرینہ دوست نے ”دی ہیمر“ گروپ چھوڑ دیا ہے تو مجھے احساس ہوا کہ شاید دوستوں کو اب مجھ سے یا میرے تشکیل شدہ گروپ ”دی ہیمر“ سے دلچسپی نہیں رہی اور رہے بھی کیوں ، کہ میں اپنے معاشرے کے غیر منصفانہ ، ظالمانہ اور استحصالی نظام سے شکست کھا جانے والا ایک کردار ہوں .

علاوہ ازیں اب میری حیثیت ایک ”چراغ ِسحر“ سے زیادہ نہیں رہی جو اب بجھا کہ تب بجھا ، اس لٸے میں نے بادل ِ ناخواستہ یہ فیصلہ کیا ہے کہ آج سے ”دی ہیمر ١“ اور ”دی ہیمر ٢“ ، دونوں گروپس کو ختم کر کے اپنے دیگر دوستوں کو آزماٸش میں مبتلا نہ کروں ۔ میں ان گروپس کے جملہ معزّز اراکین کا دل کی گہراٸیوں سے شُکر گزار ہوں کہ انہوں نے میرے تشکیل کردہ اس گروپ میں شمولیت اختیار کی ، میری ٹوٹی پھوٹی نگارشات و گزاشات کو پڑھا اور بسا اوقات اظہار ِ پسندیگی کے ذریعے میری ہمّت افزاٸی بھی فرماٸی ۔ آج میں بحیثیت ”ایڈمن“ ان گروپس کے خاتمے کا اعلان کرتا ہوں ۔ اس گروپ پر یا اس کے علاوہ میری کسی تحریر ، قول ، فعل یا نظرٸیے سے کسی کی دل آزاری ہوٸی ہو یا تکلیف پہنچی ہو تو میں دست بستہ معذرت کا بھی خواستگار ہوں ۔ آخر میں تمام دوستوں ، ساتھیوں ، بہی خواہوں اور دیگر خواتین وحضرات سے ملتمس ہوں کہ مجھے اپنی دعاٶں میں یاد رکھیں ۔ اللّہ ہم سب کا نگہبان ہو ۔

News Desk
News Deskhttps://educationnews.tv/
ایجوکیشن نیوز تعلیمی خبروں ، تعلیمی اداروں کی اپ ڈیٹس اور تحقیقاتی رپورٹس کی پہلی ویب سائٹ ہے ۔
متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں

مقبول ترین