کراچی : جامعہ کراچی بحالی تحریک کا عملی طور پر آغاز کر دیا گیا ہے ۔ تمام اساتذہ ‛ افسران اور ملازمین کی یونین ‛ ایسوسی ایشنز اور گروپس نے باہمی حکمت عملی سے تحریک کا اعلان کیا ہے ۔ تحریک نے شہر اور سندھ کی سرکاری جامعات کو بھی ساتھ ملانے کا فیصلہ کیا ہے ۔
ڈاکٹر ریاض احمد سمیت غفران عالم ‛ فیضان الحسن ‛ منصور ‛ افتخار سمیت دیگر نے پریس کانفرنس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ کراچی کی بگڑتی انتظامی و مالیاتی صورتحال، کرپشن، ریٹائرڈ و حاضر سروس اساتذہ، ملازمین و افسران کو درپیش مسائل پر سیر حاصل مشاورت کے بعد جامعہ کراچی بحالی تحریک کا آغاز کیا جا رہا ہے ۔ اس تحریک میں انجمن اساتذہ، انجمن افسران، انجمن ملازمین کے عہدیدار، سنڈیکیٹ اراکین، اساتذہ، ملازمین، افسران کے گروپس کے سرکردہ افراد اور پروفیسر پرویز اختر صدیقی و پروفیسر سهیل برکاتی شامل ہیں۔
یہ مادر علمی اس وقت اس شہر بلکہ پورے ملک سے تقریباً 40000 ہزار طالب علموں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی ذمہ دار ہے ۔ اور ساتھ ہی ساتھ اس عروس البلاد شہر کی سب سے بڑی جامعہ ہے اور اس جامعہ سے تعلیم یافتہ با صلاحیت نوجوان اس ملک میں اور اس ملک سے باہر ہر شعبہ میں اپنا لوہا منوا رہے ۔
مذید پڑھیں : سندھ: جامعہ کراچی کے تحت SFDL پہلی جدید ڈی این اے لیبارٹری، گزشتہ برس 2162 کیسز موصول ہوئ
اس وقت جامعہ کراچی کا انتظامی ڈھانچہ، مالیاتی امور اور انفراسٹرکچر سب زوال پذیر ہیں ۔ اداروں کی عمارتیں قدر بوسیدہ و تباہی کا شکار ہیں ، اساتذہ اور طلبہ کی حفاظت کے پیش نظر کچھ کلاسز اور تجربہ گاہیں باقاعدہ بند کر دی گئیں ہیں ۔ انڈر گریجویٹ تجربہ گاہوں میں کیمیکلز اور انسٹرومنٹ کی شدید قلت ہو چکی ہے ، شعبہ جات کو ماہوار جزوی امور کے لیے کنٹیجنسی فنڈ دستیاب نہیں ہے یا کئی ماہ بعد فراہم کیا جا رہا ہے ۔
طلبہ کی فیسوں میں کئی گنا اضافہ کیا جا چکا ہے لیکن پھر بھی تنخواہوں، پنشن میں تاخیر معمول بنتی جا رہی ہے ۔ یونیورسٹی کے پینل پر ہسپتال آئے دن بند کر دیئے جاتے ہیں کہ انکی پے منٹ میں تاخیر ہے ، میڈیکل بلز، تین ہزار سے زائد اساتذہ وہ ملازمین کے ایوننگ کے مشاہرے ڈیڑھ سال سے ادا نہیں کیے گئے، غیر مستقل چھ سو سے زائد اساتذہ کو انکی ماہوار سیلری یا فی کلاس ادائی سال بھر سے بند ہے ۔ جامعہ کراچی کے علمی معیار ، مالی بدانتظامی اور انتظامی ترجیحات کو از سر نو ترتیب دینے کے لیے یونیورسٹی کی سینیٹ، سنڈیکیٹ، فنانس کمیٹی، اکیڈمک کونسل کو بالکل بے اختیار کر دیا گیا ہے ۔
ان statutory bodies کے اجلاس بھی نہیں بلائے جار ہے ۔ چھ سال سے جامعہ کراچی کا بجٹ پیش ہی نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی اسے سینیٹ سے منظور کروایا گیا ہے ۔ سونے ہر سہاگہ یہ کہ ۲۰۱۸ یونیورسٹی ایکٹ میں ترامیم کے بعد سے حکومت سندھ نے یونیورسٹی میں تعیناتیوں پر پابندی اور قدغنیں لگا کر پروموشن کمیٹی، سلیکشن بورڈ، سنڈیکیٹ کو غیر فعال کر دیا ہے ۔ اس وقت شیخ الجامعہ ایک 01 BPS کے خاکروب کو بھی بھرتی نہیں کر سکتے ۔
سنڈیکیٹ سے منظور شدہ 102 افسران اور600 سے سے زائد ملازمین کی بے فکسیشن اور آٹھ ماہ سے تعطل کا شکار ہے ۔ 180 ملازمین کی گریوینس رپورٹ سنڈیکیٹ میں پیش ہونے کے بعد ڈیڑھ سال سے فیصلے کی منتظر ہے .600 سے زائد جزوقتی و وزیٹنگ اساتذہ کو ایک سال سے سیلری و پر لیکچر مشاہرہ ادا نہیں ہوا ۔ 300 سے زائد سرونگ اساتزہ 2019 سے سلیکشن بورڈ کے منتظر ہیں جن میں بیشتر اگلے کیڈر کے لیے دس سال سے کوالیفائی کر چکے ہیں. سلیکشن بورڈ اور سلیکشن کمیٹیوں کے اجلاس، منتخب کی منظوری، تعیناتیوں کے خطوط کا اجراء تک سیکریٹری بورڈز کی ذاتی خواہشات کا منتظر رہتا ہے۔
مذید پڑھیں : اسرا یونیورسٹی کو تمام کیمپسز میں داخلے کرنے سے HEC نے روک دیا
یہیں پر بس نہیں ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور سندھ حکومت کی جانب سے جامعہ کراچی کو دی جانے والی گرانٹ اونٹ کے منہ میں زیرہ ہیں ۔ اور یونیورسٹی اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے طلبہ کی فیسوں میں بے تحاشہ اضافی کر چکی ہے ۔ یونیورسٹی اب اخراجات کا پچاس فیصد اپنے زرائع سے حاصل کرنے کے باوجود جا بجا تنخواہوں کی عدم ادائی، ایوننگ مشاہرے کی بندش، میڈیکل سہولیات پر قدغنیں لگا کر لوئیر مڈل کلاس طلبہ کو یونیورسٹی بدر اور ریٹائرڈ و حاضر اساتذہ، ملازمین، افسران کو اپنے حقوق سے محروم کر رہی ہے ۔ بنیادی قانونی حق یعنی ہسپتال میں علاج کے لیے پینل ہسپتال جیسے ڈاؤ، لیاقت نیشنل کئی ماہ سے عدم ادائی کی وجہ سے ہٹائے جا چکے ہیں. اپنی جیب سے لاکھوں روپے خرچ کر کے قرض لے کر حاضر و ریٹائرڈ اور ان کے ڈپنڈنٹ علاج کروانے پر مجبور ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان تمام مسائل سے لوگوں کو باخبر کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔
پرس کانفرنس میں مذید کہا گیا کہ ہم سمجھتے ہیں ملک کی سب سے بڑی جامعہ کی بدحالی کے ذمہ دار ہائیر ایجوکیشن کمیشن، حکومت سندھ کی بے جا مداخلت ہے ۔ جامعہ کراچی کی بدحالی کی اولین وجہ ان اداروں کی جانب سے یونیورسٹی کی خود مختاری کو پامال کرنا ہے ۔ یہ سلسلہ گزشتہ ۲۰ سال سے جاری ہے البتہ ایچ ای سی کی شریک ( ۲۰۱۸ کی سندھ یونیورسٹیز آرڈیننس کے زریعہ ) سندھ حکومت بھی بن چکی ہے ۔ یونیورسٹی کی قانون ساز باڈیز کے علمی اختیارات ایچ ای سی اور انتظامی اختیارات اب سندھ حکومت کے پاس ہیں ۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت نے ۱۹۷۳ کا تاریخ ساز یونیورسٹی ایکٹ دیا تھا مگر اب اس ایکٹ کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں ۔
جہاں اختیارات غصب ہوئے ہیں تو اس کا اثر یونیورسٹی انتظامیہ کے اپانج پن میں گزشتہ چند سالوں سے ظاہر ہو رہا ہے ۔ تحریک سمجھتی ہے کہ تنخواہوں، پینشن ، طلبہ اسکالر شپس واجبات کی ادائی میں روزافزوں تاخیر ، پروموشن و سلیکشن بورڈز، ایوننگ بلز، ریسرچ گرانٹ، میڈیکل کوریج میں کئی کئی سال کی تاخیر دراصل ان سے انکار ہے اور عمارتوں، کینٹیز، پوائنٹ بسوں کی تباہی کا سبب کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ کی نااہلی اور عدم توجہی ہے ۔ صورتحال یہ ہے کہ اس سال بجٹ کا نصف حصہ فیسوں سے وصول کرتے ہوئے ۳۶۷ ارب روپے اکھٹے کیے جا رہے ہیں ۔
مذید پڑھیں : قطری حافظ غانم المفتاح سے لیکر پاکستانی حافظ محمد عدیل تک – امن و انسانیت کا درس دیتے مستقبل کے معمار
فیسوں میں اضافے سے جہاں لوئیر مڈل کلاس کے لیے یونیورسٹی تعلیم ناممکن ہو رہی ہے لیکن وہیں یونیورسٹی کا مالی بحران بڑھتا جا رہا ہے ۔ واضع ہے کہ فیسوں میں اضافہ حل نہیں ہے ۔ یونیورسٹی ایچ ای سی کو اپنا بجٹ 6 ارب روپیہ بتاتی ہے، وفاق و سندھ سے گرانٹ 3.3 ارب، فیسوں و دیگر سے آمدنی 2.2 ارب اور مارننگ سیلری کا خرچ 5.2 ارب دکھاتی ہے. یہ بجٹ فنانس پلاننگ، سنڈیکیٹ، سینٹ میں پیش سبھی نہیں کرتی جو آئینی و قانونی ذمہ داری ہے ۔
دوسری جانب سندھ حکومت سندھ کی 33 یونیورسٹیوں کو گرانٹ دیتی ہے ، ان میں ایک ارب روپے فی یونیورسٹی کی مستحق وہ یونیورسٹیاں بھی ہیں جہاں چند ہزار طلبہ بھی انرولڈ نہیں جبکہ 40 ہزار طلبہ کی کراچی یونیورسٹی کے لیے صرف 1.5 ارب روپے سالانہ مختص کیے جاتے ہیں. ایسا ہی متعصبانہ رویہ فیڈرل ایچ ای سی کا بھی ہے ۔ یونیورسٹی انتظامیہ اس صورت حال میں اپنے اداروں کے زریعہ ان مسائل کو اجاگر کرنے میں بھی ناکام ہے ۔
ڈائرکٹر فنانس نہ وی سی کو جواب دہ ہے نہ ہی سنڈیکیٹ یا سینٹ اس کی باز پرس کرنے اور یونیورسٹی کی آمدنی و اخراجات میں کرپشن اور بدانتظامی پر کوئی اثر قائم کرتی نظر آتی ہے ۔ یونیورسٹی کی اسٹیٹوری باڈیز جیسے اکیڈیک کونسل، سنڈیکیٹ اور سینیٹ بھی قریب غیر فعال کر دی گئی ہیں، ان کے اجلاس بھی کئی کئی ماہ اور کئی کئی سال نہیں ہوتے ۔
جہاں یونیورسٹی کی زبوں حالی احباب جامعہ پر واضع ہے کئی ایک دردمند یونیورسٹی کی بگڑتی صورتحال پر باربار تقاضہ کرتے ہیں کہ جامعہ میں اساتذہ و ملازمین اس بگڑتی صورت حال میں ان سے مدد کیوں نہیں لیتے یا خود کچھ کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ۔ وسائل جمع کر کے یقینا جامعہ کی بگڑتی صورت حال کو کسی حد تک قابو کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے ۔ ایسا کرنے سے شہر اور ہمدردان جامعہ کو یہ احساس ہو سکتا ہے کہ ہم احباب جامعہ جامعہ کو بچانے کی فکر میں ہیں اور محض تنقید کر کے اس ڈوبتی کشتی میں ڈوب نہیں رہے ہیں۔
مذید پڑھیں : طالبعلم کی ڈگری روکنے پر صدر مملکت وفاقی اردو یونیورسٹی انتظامیہ پر برہم
اس موقع پر مذید کہا گیا کہ جامعہ کراچی بحالی تحریک میں اساتذہ، ریٹائرڈ اساتذہ، افسران ، ملازمین کی نمائندہ تنظیموں کے کلیدی اراکین نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا ہے کہ ہم مندرجہ ذیل نکات پر جامعہ کراچی کی بحالی کی تحریک چلائیں گے ۔
اس تحریک کے اغراض و مقاصد یہ ہیں :
۱) جامعہ کراچی کی انتظامی، مالیاتی اور انفراسٹرکچر کو درپیش تباہی سے آگاہی کے لیے کراچی میں اہل رائے،. شهری سیاسی قیادتوں سے رابطے کرنا اور انہیں اپنی طرف متوجہ کرنا۔
۲) جامعہ کراچی کے علمی معیار ، مالی بدانتظامی اور انتظامی ترجیحات کو از سر نو ترتیب دینے کے لیے یونیورسٹی کی سینیٹ، سنڈیکیٹ، فنانس کمیٹی، اکیڈیک کونسل کو بحال کرانے کی جدوجہد کرنا۔
۲) ۲۰۱۸ یونیورسٹی ایکٹ میں ترامیم کے بعد سے حکومت سندھ نے یونیورسٹی میں تعیناتیوں پر پابندی اور قدغنیں لگا کر پروموشن کمیٹی، سلیکشن بورڈ، سنڈیکیٹ کو غیر فعال کر دیا ہے ۔ صوبائی حکومت سے یونیورسٹی کی خود مختاری بحال کروانا اور اگلے مرحلے میں سندھ بھر کی جامعات کو ساتھ ملانا۔
۳) ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور سندھ حکومت کی جانب سے جامعہ کراچی کو گرانٹ تعصب پر مبنی ہے ۔ جس کی وجہ سے یونیورسٹی اب اخراجات کا پچاس فیصد اپنے زرائع سے حاصل کرنے کے باوجود جا بجا تنخواہوں کی عدم ادائی، ایوننگ مشاہرے کی بندش، میڈیکل سہولیات پر قدغنیں لگا کر لوئیر مڈل کلاس طلبہ کو یونیورسٹی بدر اور ریٹائرڈ و حاضر اساتذہ، ملازمین، افسران کو اپنے حقوق سے محروم کر رہی ہے ۔ یونیورسٹی میں سستی اور معیاری تعلیم کے لیے سابقین جامعہ کو اپنے ساتھ ملانا اور ایچ ای سی اور سندھ حکومت کو جامعہ کراچی سے تعصب ختم کرنے پر مجبور کرنا۔
۴) جامعہ کراچی کی ترقی اور خوشحالی کے لیے عوام الناس اور مخیر حضرات کے تعاون سے علامتی تعمیر نو کے اقدامات کرنا ہے ۔
اس پریس کانفرنس میں ڈاکٹر ریاض احمد ‛ انجمن اساتذہ کے رہنما غفران عالم ‛ فیضان الحسن نقوی ‛ انصاف پسند گروپ کے افتخار احمد اور رئیس الحسن ‛ مشترکہ گروپ کمیٹی سے سید وقار علی ‛ کامران انعام ‛ اشفاق احمد ‛ فیاض قطب اور فرحان ‛ آفیسرز ویلفیئرز محمد صدیقی ‛ محمد سمیع ‛ ممبر سنڈیکیٹ محسن علی اور باسط انصاری ‛ رکن مجلس عاملہ ظفر اقبال ‛ یونائیٹڈ گروپ کے ثناء اللہ سمیت دیگر شریک ہوئے ۔