کراچی : سندھ ہائی کورٹ نے ڈاکٹر خالد محمود عراقی کی جامعہ کراچی کے وائس چانسلر کے عہدے پر تقرری کے خلاف دائر درخواست پر جمعہ کو صوبائی اور وفاقی حکام کو نوٹس جاری کر دیئے ۔
جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے فریقین اور وفاقی اور صوبائی لاء افسران کو 15 فروری کے لیے نوٹس جاری کئے ہیں ۔ جامعہ کراچی کے سابق ڈین، فیکلٹی آف سوشل سائنسز، پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے اپنے وکیل حیدر وحید اور شاہ زیب اختر خان کے توسط سے سندھ ہائی کورٹ کو درخواست دی کہ 28 جولائی کو جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی کی بطور وائس چانسلر تقرری کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا جائے ۔
درخواست گزار نے سندھ کے وزیر اعلیٰ، یونیورسٹیز اور بورڈ کے سیکریٹری مرید راہموں ، ہائیر ایجوکیشن کمیشن ، رجسٹرار اور سرچ کمیٹی کے علاوہ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی کو مدعا علیہ بنایا ہے ۔ ڈاکٹر مونس احمر نے عدالت کو بتایا کہ وہ ریٹائرڈ میریٹوریس پروفیسر (BPS 22) ہیں اور انہوں نے جامعہ کراچی میں 35 سال سے زیادہ خدمات انجام دی ہیں اور وہ جامعہ کراچی کے وائس چانسلر کے عہدے کے خواہش مند امیدوار بھی تھے ۔
درخواست گزار کے وکیل نے دلیل دیتے پوئے عدالت کو بتایا کہ 29 جون 2019 کے اشتہار کے مطابق امیدواروں کو 15 جولائی 2019 تک کم از کم 25 ایچ ای سی تسلیم شدہ تحقیقی پبلیکیشنز کا ہونا ضروری تھا اور ڈاکٹر عراقی کے پاس کٹ آف کے مطابق مطلوبہ 25 تحقیقی اشاعتیں نہیں تھیں۔
مذید پڑھیں : جامعہ کراچی: 18 جنوری 2023 ء کو یوم الجامعہ کا انعقاد کیا جارہا ہے
انہوں نے مزید عرض کیا کہ سرچ کمیٹی نے ڈاکٹر عراقی کی کچھ تحقیقی اشاعتوں کو مدنظر رکھا جو کٹ آف تاریخ کے بعد شائع ہوا تھا اور اسی بنیاد نے انہیں VC کی تقرری سے محروم کر دیا تھا۔ وکلاء نے موقف اختیار کیا کہ ڈاکٹر خالد محمود عراقی کو غیر قانونی طور پر مقررہ نظیروں اور طریقہ کار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وی سی کے طور پر تعینات کیا گیا اور اس طرح کی تقرری سے قبل وہ تین سال سے زائد عرصے تک قائم مقام وی سی کے عہدے پر بھی غیر قانونی طور پر فائز رہے ہیں ۔
ان کا موقف تھا کہ اس عرصے کے دوران ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے قائم مقام وائس چانسلر کا چارج غیر قانونی طور پر اپنے پاس رکھا اور حالات کی وجہ سے وی سی کی تقرری میں تاخیر ہوئی ۔ وکیل نے بتایا کہ سابق وی سی ڈاکٹر اجمل خان 4 مئی 2019 کو انتقال کر گئے تھے اور اگلے ہی روز یونیورسٹیز اینڈ بورڈ ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری نے وزیر اعلیٰ کو پروفیسر ڈاکٹر جمیل کاظمی کی سفارش کرتے ہوئے سمری بھیجی تھی ۔
ان کا کہنا تھا کہ سمری کو تین سینئر ترین پروفیسرز کا پینل لگانے کے لیے آبزرویشن کے ساتھ واپس کیا گیا تھا ۔ 15 مئی کو وزیر اعلیٰ اور یونیورسٹیز اور بورڈ کے سیکرٹری نے ڈاکٹر خالد محمود عراقی کو جو کہ آخری مرتبہ سنیارٹی کے لحاظ سے 28 ویں نمبر پر تھے، کو KU کا قائم مقام VC مقرر کر دیا تھا ۔
مذید پڑھیں : گومل یونیورسٹی طلباء کو بہترین نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کے بھرپور مواقع فراہم کریگی، پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد
وکیل نے موقف اختیار کیا کہ سندھ ہائی کورٹ کے یکم جنوری 2022 کے حکم کی روشنی میں سابقہ سرچ کمیٹی کو تحلیل کر دیا گیا تھا، تاہم سرچ کمیٹیز ایکٹ 2022 کے آئین کے تحت تشکیل دی گئی ۔ نئی کمیٹی میں ایک بار پھر انہی ارکان کو شامل کیا گیا جو ڈاکٹر خالد محمود عراقی کے دار تھے اور ان کی کمیٹی میں موجودگی خود ایک متنازعہ اور مفادات کے ٹکراو کے زمرے میں آتی ہے ۔
ان کا موقف تھا کہ سرچ کمیٹی کی سمری/ سفارشات وزیر اعلیٰ کے سامنے رکھی گئی تھیں اور اس طرح انہیں عدالت میں تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت بھی کی جا سکتی ہے کہ ڈاکٹر خالد محمود عراقی کو "قابل اعتراض اسناد اور مطلوبہ اہلیت کی کمی” کے باوجود کیوں منتخب کیا گیا ؟ ۔ وکلاء نے استدلال کیا کہ ان کے مؤکل کی معلومات کے مطابق وہ جامعہ کراچی کے وائس چانسلر کے عہدے کے لئے سرچ کمیٹی کی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر تھے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر اقرار احمد خان کے معاملے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق، اگر کسی امیدوار کو نچلی سطح پر رکھا گیا ہو تو وزیر اعلیٰ وجوہات پیش کرنے کے پابند ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ کمیٹی کو یہ بھی ہدایت کی جا سکتی ہے کہ وہ وجوہات پیش کرے کہ اس نے میرٹ کو نظر انداز کیوں کیا اور مستحق امیدواروں کو نظر انداز کیوں کیا گیا ۔
انہوں نے یہ بھی استدعا کی کہ وہ غیر قانونی نوٹیفکیشن کو ایک طرف رکھیں اور چیف منسٹر کو ہدایت کریں کہ وہ درخواست گزار کو بطور VC مطلع کریں کیونکہ انہیں سرچ کمیٹی کی سفارشات میں ڈاکٹر عراقی کے بعد دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے ۔