جمعہ, ستمبر 13, 2024
صفحہ اولتازہ ترینوفاقی اردو یونیورسٹی کی قائم مقام رجسٹرار نے اپنی ہی انکوائری رپورٹ...

وفاقی اردو یونیورسٹی کی قائم مقام رجسٹرار نے اپنی ہی انکوائری رپورٹ کی دھجیاں اڑا دیں

کراچی : وفاقی اردو یونیورسٹی میں 2020ء کی تہلکہ خیز رپورٹ منظر عام پر آ گئی ہے ۔ اس رپورٹ پر آج تک عملدرآمد نہ ہونا سوالیہ نشان ہے ، رپورٹ مرتب کرنے والی کمیٹی کی کنوینر پروفیسر ڈاکٹر زرینہ اس وقت رجسٹرار کے عہدہ پر فائز ہیں ۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابقہ رجسٹرار ڈاکٹر محمد صارم کی طرف سے تشکیل دی گئی ایک انکوائری کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے ، جس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوا ۔

ڈاکٹر محمد صارم کی طرف سے 19 اکتوبر 2020ء کو ایک نوٹنگ برائے منظوری پیش کی گئی تھی ، جس میں تحریر ہے کہ چند ملازمین نے دفتری اوقات میں احتجاج کیا ، اپنے فرائض منصبی سے غفلت برتی ، جس کے باعث شعبہ جات میں کام متاثر ہوا ۔

نوٹنگ میں مزید درج ہے کہ اس احتجاج میں جامعہ کے ملازمین کے ساتھ ساتھ بیرونی عناصر بھی شریک ہوئے اور ان کی جانب سے جامعہ کے اعلی عہدوں پر فائز شخصیات خاص طور پر محترمہ شیخ الجامعہ کے لیے انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے ۔

مذید پڑھیں : لیاری نرسنگ کالج کی سابق پرنسپل شبانہ بلوچ کی احتجاج کے نام پر ڈرامہ بازی پکڑی گئی ؟

ان معاملات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل کی نوٹنگ اس وقت کی قائم مقام شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر روبینہ مشتاق کو منظوری کے لیے پیش کی گئی ۔ بعد ازاں 19 اکتوبر کو ہی اس کمیٹی کی تشکیل کا دفتری حکم ڈاکٹر محمد صارم کی طرف سے جاری کیا گیا اور کمیٹی میں موجودہ رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر زرینہ علی کو کنوینر اور ڈاکٹر سید اخلاق حسین اور سید دانش علی کو اراکین میں شامل کیا گیا ۔

منظر عام پر آنے والے دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت کے کیمپس آفیسر سید دانش علی نے ہی احتجاج میں شریک ہونے والے ملازمین کی تصاویر، نام اور دیگر تفصیلات شیخ الجامعہ کے رو برو مزید کارروائی کے لیے پیش کیں ۔ ان ملازمین میں پریم ناتھو ،اجے پرکاش ، نیاز احمد ، اسامہ صدیقی ، عبدالرشید ، ممتاز کھوکھو سمیت دیگر شامل تھے ۔

انکوائری کمیٹی کے سامنے فہیم نیاز ، کامران علی شاہ ، اقرار علی شاہ ، شاہ نواز بلوچ اور سید معظم علی نے اقرار کیا تھا کہ انہوں نے یونین کے صدر اور شعبہ باغبانی کے انچارج کے بہکاوے میں آکر احتجاج کیا تھا ۔ اس کے علاوہ اسسٹنٹ ٹریژرار ابراہیم عباسی ، کمال فاروق ، سلمان عامر ، متین بلوچ ، ریاض احمد ، زعیم الدین ، غلام رسول بھگیو ، حسنین بلوچ ، جاوید اختر ، محمد عمران نے بھی شرمندہ ہوکر معافی مانگی تھی ۔

وفاقی اردو یونیورسٹی کی قائم مقام رجسٹرار زرینہ علی کی تیار کردہ انکوائری رپورٹ
وفاقی اردو یونیورسٹی کی قائم مقام رجسٹرار زرینہ علی کی تیار کردہ انکوائری رپورٹ

اس کے علاوہ بلال بختیار صدیقی ، ذوالفقار علی ، شعبہ کمپوٹر سائنس کی صدف شہاب ،عمران شیخ ، ایاز حسین اور تنویر حسین نے بھی اقرار کیا کہ ہمیں زبردستی لے جایا گیا اور ہمیں احتجاج کا حصہ بنایا گیا ۔ شعبہ امتحانات کا ملازم سید خرم حسین ، کامران بخاری ، محسن بٹ ، مولا بخش  اور ہاشم صدیقی نے غیر تسلی بخش جواب دیا تھا جن کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی تھی ۔ اس کے علاوہ سید جمال ناصر ، سید ریحان علی ، محمد عدنان اختر ، فیضان احمد نے بھی غیر تسلی بخش جواب دیئے ۔

کمیٹی کی سفارشات پر روشنی ڈالی جائے تو کمیٹی نے احتجاج میں شرکت کرنے والے کثیر تعداد میں ملازمین کو شوکاز نوٹسز کے اجراء ، اضافی عہدے واپس لینے، اسٹامپ پیپر پر معافی نامہ وصول کرنے اور آئندہ 2 سال تک ترقی نہ دینے کی سفارشات کی گئیں ۔

مذید پڑھیں : وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد کیمپس کا انچارج کس ایما پر لگایا گیا ؟

اس کے علاوہ اہم سفارش میں آئندہ 3 سال تک کوئی اضافی ذمہ داری نہ دینے کی سفارش کی گئی تھی ۔ جب کہ موجودہ رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر زرینہ علی نے اپنی کی مرتب کردہ سفارشات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ان سفارشات کے خلاف چند ملازمین کو اضافہ عہدوں سے نواز دیا ہے ۔

اس کے علاوہ کمیٹی کی دیگر سفارشات پر عملدرآمد نہ ہونے پر بھی سوالیہ نشانات ہیں اور اس کمیٹی کی سفارشات میں شامل کئی ملازمین کو ڈاکٹر زرینہ علی نے خود ہی کئی اہم عہدوں سے نواز دیا ہے ۔ جس سے ان کی سفارشات کی مزید خلاف ورزی دکھائی دیتی ہے ۔ اس حوالے سے قائم مقام رجسٹرار سے متعدد بار رابطہ کیا گیا تاہم انہوں نے فون ریسیو نہیں کیا ، ان کا موقف موصول ہونے پر شائع کر دیا جائے گا ۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں

مقبول ترین