جمعہ, دسمبر 6, 2024
صفحہ اولتازہ ترینسرکاری گاڑیوں کے ذاتی اور غیر قانونی استعمال سے  وفاقی اردو یونیورسٹی...

سرکاری گاڑیوں کے ذاتی اور غیر قانونی استعمال سے  وفاقی اردو یونیورسٹی کو لاکھوں روپوں کا نقصان

 

تفصیلات کے مطابق وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابق قائم مقام شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر کو قائم مقام شیخ الجامعہ کے عہدہ سے برخواست ہوئے 1 ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔

 

گزشتہ ماہ سے ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے عبدالحق کیمپس میں ڈین آفس میں اب تک رجوع بکاری نہیں دی۔ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین اس وقت 3 مختلف فیکلٹیز کے ڈین ہیں اور ان فیکلٹیز میں کل 17 شعبہ جات آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے اسسٹنٹ پروفیسر کی موجودگی کے باوجود شعبہ انگریزی کے صدرِ شعبہ کا عہدہ بھی اپنے پاس ہی رکھا ہوا ہے۔

 

یونیورسٹی قوانین کے مطابق ان تمام شعبہ جات کے اساتذہ اور غیر تدریسی عمال کے علاوہ طلبہ کے معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے متعلقہ صدرِ شعبہ کے علاوہ ڈین کی تصدیق بھی لازمی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین گزشتہ ماہ سے بلااطلاع غیر حاضر ہیں اور اس کے نتیجہ میں عبدالحق کیمپس میں انتظامی و تدریسی امور میں تعطل کی وجہ سے پورا نظام درہم برہم ہوتا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں:فیملی فزیشنز نے پاکستان میں نظام صحت کا آدھےسے زیادہ بوجھ اٹھایا ہوا ہے،سارا قاضی

یونیورسٹی قوانین کے مطابق ڈین کو ماہانہ 170 لیٹر پیٹرل مہیا کیا جاتا ہے اس کے باوجود اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے قائم مقام شیخ الجامعہ کا عہدہ سنبھالنے سے قبل بھی ہفتہ میں بیشتر دن غیر حاضر رہتے تھے۔

 

انہوں نے دیگر ملازمین کی طرح کبھی حاضری نہیں لگائی جبکہ سندھ ہائی کورٹ اردو یونیورسٹی میں حاضری لگانے کی ہدایت بھی کرچکی۔ اس صورتحال میں اساتذہ نے ان کی غیر حاضری پر سوالات اٹھانے شروع کردیئے ہیں جبکہ طلبہ کی طرف سے بھی جلد ہی آواز بلند کرنے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔

 

دوسری طرف یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کے اہلِ خانہ اب تک سرکاری گاڑی کا استعمال کررہے ہیں جبکہ یونیورسٹی کی طرف سے پیٹرول اور گاڑی صرف متعلقہ ملازم کو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔

 

اطلاعات کے مطابق مورخہ 18 مئی 2023ء کو بھی ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کی صاحبزادی یونیورسٹی کی گاڑی سوزوکی آلٹو نمبر GP-4688پر بمع ڈرائیو عبدالحق کیمپس میں تشریف لائیں اور دوپہر تک یہ گاڑی اور ڈرائیور ان کے زیرِ استعمال رہے جبکہ ان کے ساتھ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین موجود نہیں تھے۔

مزید پڑھیں:ڈی آئی خان: گومل یونیورسٹی کے اشتراک سے پہلے جرنلسٹ بیڈمنٹن ٹورنامنٹ کا انعقاد 22اور 23 مئی کو ہوگا

اردو یونیورسٹی و دیگر سرکاری اداروں کے متعلقہ قوانین کا جائزہ لیا جائے تو ان کے قوانین کے مطابق جب بھی کسی سرکاری افسر کو کوئی گاڑی، ڈرائیور یا پیٹرول مہیا کیا جاتا ہے تو یہ سہولت اس ملازم کے گھر سے دفتر آنے جانے یا کسی سرکاری امور کی انجام دہی کے لیے دی جاتی ہے۔

 

یہ سہولت کبھی بھی اہلِ خانہ کے لیے نہیں ہوتی۔ اگر ایسا کوئی عمل سامنے آئے تو اس پر قانونی کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اب تک وائس چانسلر کی سرکاری گاڑی بھی اکثر رات گئے تک ان کے زیرِ استعمال رہتی ہے۔

 

اردو یونیورسٹی میں اس وقت ٹرانسپورٹ کے انچارج عدنان اختر ہیں جوکہ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کے قریبی ساتھی ہیں لہٰذا گاڑی، ڈرائیور اور پیٹرول کے خلاف ضابطہ استعمال کی ذمہ داری ان پر بھی عائد ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں:لاھور گرامر اسکول کے بچوں کو اسکول آنے اور امتحانات دینے سے نہ روکا جائے، عدالت

ایک طرف اردو یونیورسٹی اپنے تاریخ کے بدترین مالی و انتظامی بحران میں مبتلا ہے تو دوسری طرف ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کی طرف سے مسلسل غیر حاضر رہ کر 3 فیکلٹیز اور 17 شعبہ جات کی انتظامی مشکلات میں اضافہ کے ساتھ ساتھ سرکاری وسائل کا ذاتی اور بے دریغ استعمال سے یونیورسٹی کے مالی بحران میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے۔

News Desk
News Deskhttps://educationnews.tv/
ایجوکیشن نیوز تعلیمی خبروں ، تعلیمی اداروں کی اپ ڈیٹس اور تحقیقاتی رپورٹس کی پہلی ویب سائٹ ہے ۔
متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں

مقبول ترین