کراچی :ڈاؤیونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی پرو وائس چانسلر پروفیسر سارا قاضی نے کہا ہے کہ فیملی فزیشنز نے پاکستان میں نظام صحت کا آدھےسے زیادہ بوجھ اٹھایا ہوا ہے ہے کووڈ میں ہمیں خوب اس کا اندازہ ہوگیا کہ ہمارے ہیلتھ کیئر سسٹم میں ی وبا کی صورت حال سے نمٹنے کی کتنی صلاحیت ہے۔
اگر فیملی ڈاکٹرز ابتدائی سطح پر طبی امداد فراہم نہ کریں تو بڑے پیمانے پر نقصان بھی ہوسکتا ہے یہ ڈاکٹرز ابتدائی سطح پر مریض کو طبی امداد فراہم کرتے ہیں جس سے مرض ٹھیک ہو جاتا ہے ہے اور اکثر لوگ کسی اور طبی مرکز میں جانے سے پہلے ہی صحت یاب ہوجاتے ہیں جس سے اگلے صحت مرکز اور کنسلٹنٹس پر دباؤ کم ہوتا ہے۔
پاکستان جیسے عامما لک جہاں طبی سہولتیں کافی تعداد میں دستیاب نہیں ہیں فیملی فزیشنز بہت مثبت کردار ادا کر رہے ہیں یہ باتیں انہوں نے ڈاؤ میڈیکل کالج کے عطاءالرحمان ہال میں ” ورلڈ فیملی ڈاکٹر ڈے” کے موقع پر منعقدہ تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہیں۔
مزید پڑھیں:کراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ میں ایڈھاک ازم کے تحت کسی اور بورڈ سے ناظم امتحانات کی تعیناتی قبول نہیں، سپلا
تقریب سے ڈاو یونیورسٹی شعبہ فیملی میڈیسن کے سربراہ ڈاکٹر انعم ارشد ڈکٹر مینا کماری ، ڈاکٹر زینب ڈاکٹر ضیاءالدین ہسپتال کے شعبہ فیملی میڈیسن کی سربراہ ڈاکٹر فاطمہ جہانگیر اور جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی فیملی میڈیسن کی سربراہ ڈاکٹر کرن ستا رنے بھی خطاب کیا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پروفیسر سارا قاضی نے کہا کہ مرض اور مریض کا پہلا رابطہ فیملی فزیشن یا جنہیں جنرل پریکٹشنر بھی کہا جاتا ہے سے ہی ہوتا ہے۔
انہوں نے مرض کے بارے میں تو پڑھا ہی ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ مریض کی فیملی ہسٹری سمیت دیگر معاملات سے متعلق بہت کچھ جانتے ہیں جو مریض کے علاج میں ان کی مدد کرتا ہے۔
بعض صورتوں میں تو وہ بغیر پیتھالوجی اور ریڈیالوجی کی طویل انویسٹی گیشنز سے بچ کر بھی فوری علاج کر دیتے ہیں اور مریض تکلیف سے بھی اور بڑے خرچے سے بھی بچ جاتا ہے۔
مزید پڑھیں:ڈی آئی خان: گومل یونیورسٹی کے اشتراک سے پہلے جرنلسٹ بیڈمنٹن ٹورنامنٹ کا انعقاد 22اور 23 مئی کو ہوگا
اس موقع پر خطاب میں ڈاکٹر انعم ارشد نے کہا کہ پاکستان میں فیملی میڈیسن کا شعبہ اتنا اہم نہیں سمجھا جاتا اور اس کا تصور بھی پاکستان میں 90 کی دہائی کے اوائل میں آیا دنیا بھر میں ستر کے عشرے میں فیملی میڈیسن کو پذیرائی ملی فیملی ڈاکٹرڈے منانے کا آغاز بھی 2010 سے ہی ہوا ہے۔
انہوں نے کہاں کہ جنرل پریکٹشنر اس وقت سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب مریض کو کسی "بڑے ڈاکٹر "کے پاس بھیج دیں آگہی نہ ہونے کے باعث فیملی فزیشن کو” چھوٹا ڈاکٹر” یا صرف نزلہ کھانسی کا علاج کرنے والا ڈاکٹر سمجھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر فاطمہ جہانگیر نے کہا کہ ہیلتھ کیئر سسٹم میں جو اہمیت فیملی ڈاکٹر کی ہے وہیں انسانی جسم میں دل کی ہےاس لئے فیملی ڈاکٹر کو ہیلتھ کیئر سسٹم کا دل کہا جاتا ہے جبکہ یہی فیملی ڈاکٹر گیٹ کیپر بھی ہے جس کا مریض سے پہلا رابطہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر کرن سنگھ نے کہا کہ نئے ڈاکٹرز کو فیملی میڈیسن کی طرف آنا چاہیے اس شعبے کو کو کم اہم سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جوں جوں اس کے بارے میں شعورو آ گہی پھیلے گی اس کی اہمیت میں اضافہ ہوگا۔
مزید پڑھیں:پروفیسر ڈاکٹر عابد عباسی کے مجموعے "بے تاب بیتی” کی تقریب پزیرائی کا انعقاد
ڈاکٹر میناکماری نے کہا کہ فیملی میڈیسن کی پوسٹ فیلو شپ کو ابھی ہمارے یہاں تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے تو اس سے دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں لیکن وہ بھی اب زیادہ دور کی بات نہیں نہیں بعدازاں شرکاء کو دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔