تحریر: جسٹس ریٹائرڈ ظفر احمد شروان
جسٹس ریٹائرڈ ظفر احمد شروانی سندھ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہیں۔ آپ نے ۱۹۷۵ میں جامعہ کراچی سے ال ال بی کیا۔اس کے بعد تین سال بہ طور وکیل خدمات انجام دیں۔پھر منصفی کے منصب پر فائز ہوئے اور انتیس برس کے عدالتی کیریئر میں سول جج سے لے کر سندھ ہائی کورٹ کے جج کے منصب تک پہنچے۔
آپ نے اپنے اس طویل دورانیے میں بہت سے اہم اور منفرد اقدامات کیے، جن میں ضلعی عدالتوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی متعارف کرانے کا سہرا بھی آپ کے سر ہے۔آپ پرویز مشرف کے دور میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر کے واپس گھر لوٹ آئے اور اس وقت سے مختلف رفاہی خدمات میں مصروف عمل ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ۲۰۲۱ء میں آپ کی کتاب "ہاں میں انکاری ہوں” جو در اصل آپ کی خود نوشت ہے، منظر عام پر آئی،جو اس کا دوسرا ایڈیشن تھا۔گزشتہ رمضان المبارک سے کچھ پہلے آپ سے ریجنل دعوۃ سنٹر کراچی کے ایک پروگرام میں پہلی ملاقات ہوئی،اس ملاقات میں ہی آپ کے بارے میں بہت عمدہ تاثر قائم ہوا۔
مزید پڑھیں:حبیب یونیورسٹی کے کانووکیشن میں چھٹی گریجویشن کلاس کا جشن
آپ اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہوئے وقت سے پہلے خاموشی کے ساتھ تشریف لے آئے۔ جبکہ انہیں صرف فون پر دعوت دی گئی تھی، اور وہ اس سے قبل ہم میں سے کسی کے چہرے سے بھی آشنا نہیں تھے۔اس ملاقات کے بعد میں وقت لے کر خود آپ کی رہائش پر حاضر ہوا تو آپ نے یہ کتاب اپنے دستخط کے ساتھ عطا فرمائی۔
جب سے یہ کتاب ہمارے ہاتھوں میں ہے اور اس سے مسلسل استفادہ ہو رہا ہے،کتاب کا حق تو یہی تھا کہ اسے مسلسل اور ایک ہی نشست میں پڑھا جاتا، اور تحریر کی چاشنی ایسی ہی ہے، جو قاری کو اپنے ساتھ ساتھ رکھتی ہے، لیکن ہم اپنی انتظامی مصروفیتوں اور لایعنی ریاضتوں کے سبب ایک نشست میں تو اسے نہیں پڑھ سکے لیکن جب سے کتاب ہمیں ملی ہے مسلسل ہمارے ہاتھ میں ہے اور یہ اپنے آپ کو ہم سے پڑھوارہی ہے۔
ہماری تاریخ اور تاریخ میں چھپے ہوئے بہت سے کردار اس کتاب سے واضح ہوتے ہیں، اور ایسے موضوعات سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک قیمتی تحریر ہے۔
کتاب کے آغاز میں جسٹس صاحب نے اپنا اور اپنے خاندان کا تعارف کرایا ہے،خاص طور پر اپنی نسبت شروانی اور اس کے درست تلفظ کی وضاحت کی ہے۔
مزید پڑھیں:ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا !!!
اس آپ بیتی کے ویسے تو سارے حصے ہی دل چسپ ہیں،لیکن بعض حصے تو غیر معمولی طور پرسبق آموز بھی ہیں۔آپ نے اپنے خاندان کے ابتدائی احوال میں جو تفصیلات بیان کی ہیں،اس وقت کے شرفا کے خاندانوں کا یہی طریقہ تھا،اب البتہ وہ اقدار اور روایات دم توڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔
آپ جب سول جج کی حیثیت سے تعینات ہو کر خیرپور سندھ تشریف لے گئے تو اس وقت کے احوال بھی آپ نے بہت دلچسپ انداز میں بیان کیے ہیں۔آپ کی پوری تعلیم کراچی میں ہوئی تھی اور اندرون سندھ جانے اور وہاں قیام کا یہ پہلا مرحلہ تھا،اس سے قبل آپ کو اندرون سندھ رہنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا،پھر آپ سندھی زبان سے بھی اس وقت تک واقف نہیں تھے۔
اس لیے آپ کی دشواریاں دو چند ہو سکتی تھی، لیکن جس انداز میں آپ کو اس علاقے میں خوش آمدید کہا گیا اور جس طرح اس علاقے کے لوگوں نے آپ کے ساتھ تعاون کیا اس کا اظہار،بلکہ حسن اظہار آپ کی تحریر میں گندھا ہوا نظر آتا ہے۔
مزید پڑھیں:مطمع نظر الحاق شدہ کالجز اور انسٹی ٹیوٹ کی بہتری ہے، پروفیسرڈاکٹر سروش لودھی
آپ نے وہاں رہ کر سندھی زبان سیکھی اور اس میں گفتگو کرنے اور لکھنے پڑھنے کی مہارت بہم پہنچائی،یہ ایک الگ دلچسپ موضوع ہے۔
کتاب کا شاید سب سے قیمتی حصہ وہ ہے جب آپ نے جنرل پرویز مشرف صاحب کے دور میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا۔اس وقت کے احوال آپ نے تفصیل سے بیان کیے ہیں۔
اس سلسلے میں اپنے معاصر جج حضرات سے آپ کے تبادلہ خیال اور آپ پر مختلف نوعیت کے آنے والے دباؤ کا ذکر آپ نے جس ہلکے پھلکے انداز سے کیا ہے وہ ہم سب کے لیے سبق آموز بھی ہے اور مشعل راہ بھی۔