ٹنڈوجام(پریس رلیز) سندھ میں گندم اور کپاس کے بیج کا فقدان، زرعی یونیورسٹی کی زیرمیزبانی سندھ کے صوبائی اور وفاقی زرعی و تحقیقی اداروں، نجی سیکٹر ایک پیج پر آگئے، تصدیق شدہ بیج پر تحقیق بڑھانے کا عزم، ھائبرڈ سیڈ انسٹیٹیوٹ کے قیام اور سیڈ کیلئے دو روزہ سمپوزیم کے انعقاد کی تجویز، کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔
تفصیلات کے مطابق ملک اور خاص طور پر سندھ میں گندم، کپاس، چاول، سبزیوں اور دیگر فصلوں کے تصدیق شدہ بیج کی کمی اور ملک کے مختلف علاقوں سے سندھ آنے والے غیر معیاری بیج کے نقصانات اور دیگر مسائل سمیت مستقبل میں تصدیق شدہ بیج کی دستیابی کو یقینی بنانے اور تحقیق کو فروغ دینے کیلئے سندھ کے مختلف زرعی، تحقیقی اداروں کے ماہرین اور خانگی سیکٹر کے نمائندگان کا ایک اہم اجلاس سندھ زرعی یونیورسٹی میں وائیس چانسلر ڈاکٹر فتح مری کی زیر صدارت ہوا۔
اجلاس میں ڈین ڈاکٹر عنایت اللہ راجپر، ڈئریکٹر ہائی پاور فارمز کامیٹی ڈاکٹر مجاہد حسین لغاری، ڈئریکٹر ایگریکلچر انسٹیٹیوٹ ڈاکٹر لیاقت بھٹو، ڈئریکٹر کاٹن ریسرچ سینٹر مظھر کیریو، ریجنل ڈئریکٹر فیڈرل سیڈ سرٹیفکیشن رضوان بخش سومرو، ایگزیکیوٹو ڈئریکٹر ویٹ ریسرچ سینٹر ولی محمد بلوچ، نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ آف ایگریکلچر کے حفیظ الرحمٰن، سیف اللہ ابڑو، پروفیسر محمد اسماعیل کمبھر، ڈاکٹر شاھنواز مری، مس سائرہ بانو ببر، روشن علی جونیجو، اسداللہ جمالی، ٹاسکو سیڈ کمپنی کے ایم ڈی محمد طارق خانزادہ، ڈئریکٹر ریسرچ اینڈ ڈولپمینٹ منظور احمد کھوڑو، محمد مٹھل لنڈ اور دیگر شریک ہوئے۔
مزید پڑھیں:سائبر ورلڈ سے آزادی جسمانی کھیلوں میں ہے،رجسٹرار این ای ڈی
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وائیس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کہا تصدیق شدہ بیج صوبے کا سب سے بڑا زرعی مسئہ بن چکا ہے، ملکی ترقی اور کسان کی خوشحالی، تصدیق شدہ بیج سے منسلک ہے، لحٰظٰ اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے صوبے کے زرعی پالیسی ساز اور تحقیقی و توسیعی اداروں، بیج تصدیق کرنے والی اتھارٹیز، بریڈر، کسان اور نجی سیکٹر پر مشتمل دو روزہ سیڈ سمپوزیم کا انعقاد کیا جائے، جس میں سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ سمیت زرعی اور تحقیقی اداروں کے مرکزی و صوبائی سربراہان کی شرکت سے ہم مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔
اس موقع پر تقاریر کرتے ہوئے ماہرین نے کہا کہ سندھ میں 50 کے قریب سیڈ کی نجی کمپنیاں کام کر رہی ہیں، لیکن ملک کے دیگر علاقوں سے بغیر تصدیق آنے والی غیر معیاری سیڈ اور کھاد کی وجہ سے سندھ کی زراعت سخت متاثر ہو چکی ہے۔
انہوں نے کہا گندم کے ٹی ڈی ون اور دیگر جنسوں میں آنے والے مسائل کے حل اور متبادل نئی اجناس کی تیاری کیلئے تحقیق کا دائرہ وسیع کیا جائے، اس موقع پر اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دوسرے ممالک سے کپاس، گندم یا چاول یا ان کے بیج امپورٹ کرنے کے بجائے کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کو فعال کیا جائے اور اپنے ھائبرڈ سیڈ کی تیاری کیلئے ھائبرڈ سیڈ انسٹی ٹیوٹ کا قیام عمل میں لایا جائے۔
مزید پڑھیں:ثا نوی تعلیمی بورڈ کے زیر اہتمام سالانہ ہفتہ طلبہ کا آغاز ہو گیا
اس موقع پر تمام زرعی تحقیقی، سرکاری، و نجی اداروں سے روابط کیلئے ایک کامیٹی بھی تشکیل دی گئی، جس میں ڈاکٹر ظھور سومرو چیئرمین اور ڈاکٹر لیاقت بھٹو، منظور احمد کھوڑو، ڈاکٹر سیف اللہ ابڑو، طارق حسین خانزاہ ممبران مقرر کئے گئے۔
قبل ازیں سیڈ ڈولپمینٹ اینڈ پراڈکشن سینٹر کے ڈئریکٹر ڈاکٹر ظھور احمد سومرو نے سندھ میں گندم، کپاس اور چاول کے بیج کی ضروریات اور اسے درپیش مسائل کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سندھ میں حالیہ سیلاب کے باعث کپاس کا فصل تباہ ہوگیا تھا، اور اب ہمیں 68 فیصد کپاس اور 48 فیصد گندم کے بیج کی کمی کا سامنہ ہے۔