کراچی : اردو یونیورسٹی کے سابق قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین اپنی مدت پوری کر چکے ہیں ۔ تاہم نئے قائم مقام وائس چانسلر کا نوٹی فکیشن جاری ہونے تک وہ دفتر میں کوئی بھی زیر دستخطی امور انجام دینے کے اہل نہیں ہیں جس کی وجہ سے 2 فروری سے لیکر اب تک متعدد غیر قانونی امور انجام دیئے جا چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی کا اسکریپ چھٹی کے روز ٹرکوں میں بھر کر بیچ دیا گیا ۔
وفاقی اردو یونیورسٹی میں پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے بحیثیت قائم مقام وائس چانسلر 2 اکتوبر 2022ء کو چار ماہ کی مدت کے لیے چارج سنبھالا۔ اس دوران ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کی طرف سے غیر ضروری تبادلوں اور عہدوں کی بندربانٹ کی خبروں کے ساتھ کروڑوں روپوں کی خلاف ضابطہ ادائیگیوں کے عوض کمیشن وصولی کے الزامات پر مبنی خبریں بھی ذرائع ابلاغ کا حصہ بنیں۔
کچھ روز قبل گلشن اقبال کیمپس کے سابق کیمپس آفیسر علی مہدی کو بغیر کسی وجہ سے ہٹایا گیا تھا ۔ جس کے بعد اب ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کے دست راست غیر تدریسی عمال کے رہنما عدنان اختر کی موجودگی میں اتوار 5 فروری کو علی الصبح گلشن اقبال کیمپس میں عرصہ دراز سے رکھے ہوئے اسکریپ کو خفیہ انداز میں 2 سے 3 ٹرکوں میں لاد کر کیمپس سے باہر لے جایا گیا ہے ۔ ایک تخمینہ کے مطابق یہ سامان بطور اسکریپ لاکھوں روپے میں بیچا گیا ہے ۔
یہ تمام عمل ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کے قریبی ساتھی اور ایسے معاملات میں ماہر سمجھے جانے والے ٹرانسپورٹ انچارج عدنان اختر کی نگرانی میں عمل میں لایا گیا ہے ۔ جو اس سے قبل بھی متعدد بدعنوانی کے الزامات کی زد میں رہے ہیں جن میں ایک قیمتی جنریٹر کی گمشدگی بھی شامل ہے جس پر آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
ان معاملات میں اگر حکومتِ پاکستان کے قوانین پر نظر دوڑائی جائے تو کوئی بھی سرکاری ملکیت بیچنے کے لیے PPRA کے قوانین پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ ان قوانین کے مطابق سب سے پہلے متعلقہ ادارہ ملکی اخبارات میں سے کم از کم 2 اخبارات میں اشتہار کے ذریعہ نیلامی کا اشتہار شائع کرواتا ہے۔
بعدازاں مخصوص دورانیہ کے دوران دلچسپی رکھنے والے ادارہ اس نیلامی میں شریک ہوتے ہیں اور متعین طریقہ کار کے تحت ہی ان اداروں کی پیشکشوں کے بند لفافوں کو آکشن کمیٹی کے سامنے ایک میٹنگ میں کھول کر اس پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ یہ تمام معاملہ شفاف انداز میں طے کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا تو بتایا گیا کہ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کی طرف سے ٹیلیفون پر زبانی ہدایات دی گئیں تھیں جس کے بعد انہوں نے ان ٹرکوں کو یہ سامان لاد کر یونیورسٹی کی حدود سے باہر جانے دیا ہے ۔
اس پورے واقعہ میں عدنان اختر کی شرکت نے اردو یونیورسٹی میں کرپشن کے نئے باب کا آغاز کر دیا ہے۔ خصوصاً جب ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کا 4 ماہ کا بحیثیت قائم مقام وائس چانسلر دورانیہ ختم ہو چکا ہے اور وہ غیر قانونی طور پر دفتر شیخ الجامعہ میں براجمان ہیں تو اعلیٰ حکام کو اس پر نوٹس لینا چاہئے اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ F.I.A کو اس عمل کی تحقیقات کرنی چاہئیں تاکہ اردو یونیورسٹی جیسا قومی اثاثہ مزید بحرانوں میں مبتلا نہ ہو۔