جمعرات, نومبر 21, 2024
صفحہ اولبلاگسالِ نو کا پیغام

سالِ نو کا پیغام

دو ہزار بائیس کا سال بھی اختتام کو پہنچ گیا اور آج ہم سن دو ہزار تیئس میں داخل ہوگئے۔ پہلے تمام قارئین کو سال نو مبارک ہو۔ گزشتہ برس سیاسی اعتبار سے نہایت ہنگامہ خیز ثابت ہوا۔ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد، پھر حکومت کی تبدیلی، لانگ مارچ، سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سیاسی چپقلش وغیرہ۔ جس کے نتیجے میں ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہو گیا اور تباہ حال معیشت مزید برباد ہو گئی۔

اب تو عوام قوت لایموت سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ دعا ہے کہ حق تعالیٰ نئے سال کو ہمارے لئے خیر و برکت، ترقی و خوشحالی اور استحکام کا ذریعہ بنائے۔ جب سے خالق کائنات نے عالم کو تخلیق فرمایا ہے، اسی روز سے گردشِ لیل و نہار کا سلسلہ جاری ہے۔ جس کے نتیجے میں مہ و سال بدلتے رہتے ہیں۔ شمس وقمر دونوں رب العالمین کے پیدا کردہ اور اسی کے تابع فرمان ہیں۔ اس لئے تقویم شمسی ہو یا قمری، دونوں کو اسلامی کہا جاسکتا ہے۔ لیکن رب تعالیٰ نے اسلامی احکام کا تعلق قمری حساب سے جوڑ دیا ہے۔ اس وجہ سے قمری سال کو ہی اسلامی کہا جاتا ہے۔

قمری سال کا آغاز یکم محرم اور شمسی کا یکم جنوری سے ہوتا ہے۔ چونکہ اس وقت تقریباً پوری دنیا شمسی تقویم کے حساب سے چل رہی ہے۔ اس لئے کیلنڈر میں یکم جنوری کی تاریخ شروع ہوتے ہی جشن منایا جاتا ہے۔ نیوزی لینڈ سے شروع ہونے والا یہ جشن امریکا کے مغربی ساحل تک پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے۔ اس موقع پر بڑی بڑی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ آتش بازی کے نظروں کو خیرہ کردینے والے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں اور خوب ہلہ گلا کیا جاتا ہے۔ خود کو مہذب کہلانے والی دنیا کا سال نو کو خوش آمدید کہنے کا یہ بچکانہ طریقہ اب مسلمانوں میں بھی رواج پا گیا ہے۔ چنانچہ سال نو کی سب سے ”شاندار“ تقریب مسلمان ملک متحدہ عرب امارات میں منعقد ہوتی ہے ۔

مزید پڑھیں : متحدہ عرب امارات نے جامعات میں داخلوں کی پالیسی میں نرمی کر لی

دنیا بھر کے عیاشی کے دلدادہ لوگ اس میں شرکت کرنے آتے ہیں۔ چند برس قبل یہاں بیک وقت پانچ لاکھ پٹاخے چھوڑ کر عالمی ریکارڈ قائم کیا گیا۔ دنیا کے تمام مذاہب اور قوموں میں تہوار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے ہیں۔ ہر ایک تہوار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور وہ کوئی نہ کوئی پیغام دے کر جاتا ہے، لیکن لوگوں میں بگاڑ آنے کی وجہ سے ان میں ایسی خرافات بھی شامل کردی جاتی ہیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا ترقی کی منازل طے کرتی گئی اور ”مہذب“ ہوتی گئی، انسانوں نے کلچر اور آرٹ کے نام پر نئے جشن اور تہوار وضع کیے، انہی میں سے ایک نئے سال کا جشن ہے۔ دراصل یہ نئے سال کا جشن عیسائیوں کا ایجاد کیا ہوا ہے، عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلتی آرہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق پچیس دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، اسی کی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہی کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے۔

نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور اکتیس دسمبر کی رات میں بارہ بجنے کا انتظار کیا جاتا ہے اور بارہ بجے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے، کیک کاٹا جاتا ہے، ہر طرف ہیپی نیو ائیر کی صدا گونجتی ہے، آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھے جاتے ہیں، جس میں شراب و شباب اور ڈانس کا بھر پور انتظام رہتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں بھی اغیار کی پیروی کرتے ہوئے مسلمان نئے سال کے منتظر رہتے ہیں، اکتیس دسمبر کی رات بارہ بجتے ہی ہوائی فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جس سے گھروں میں بچے سہم جاتے ہیں اور بوڑھے اور مریض افراد کا آرام برباد ہو جاتا ہے۔ قیمتی سرمائے کا ضیاع الگ۔ بسا اوقات گولی لگنے سے قیمتی جانیں بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔

شیطان کے اتباع سے ہمیشہ نقصان ہی ہوتا ہے۔ جانی بھی اور مالی بھی۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہم متاع حیات کا ایک سال کم ہونے پر خوشی مناتے ہیں۔ یہ تو خود احتسابی کا موقع ہوتا ہے۔ زندگی خدا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ جس کا ایک سال کم ہوگیا تو اس پر افسوس کرنا چاہئے نہ کہ جشن منایا جائے۔ گزرا ہوا سال تلخ تجربات، حسیں یادیں، خوشگوار واقعات اور غم و الم کے حادثات چھوڑ کر رخصت ہو جاتا ہے اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور نا پائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہتا ہے، سال ختم ہوتا ہے تو حیاتِ مستعار کی بہاریں بھی ختم ہو جاتی ہیں اور انسان اپنی مقررہ مدت زیست کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہوتا رہتا ہے۔

”غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی

گِردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹا دی“

حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں، اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں کسی چیز پر اتنا نادم اور شرمندہ نہیں ہوا جتنا کہ ایسے دن کے گزرنے پر جس کا سورج غروب ہوگیا، جس میں میرا ایک دن کم ہوگیا اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہو سکا۔

حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ: اے ابن آدم! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے، جب ایک دن گزر گیا تو یوں سمجھ تیرا ایک حصہ بھی گزرگیا۔ نبی کریم کا ارشاد ہے: ”آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول چیزوں سے بچے۔“ جب نیا مہینہ یا نئے سال کا پہلا مہینہ شروع ہوتا تو اصحابؓ رسول ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے اور بتاتے: ”خدایا! اس نئے سال کو ہمارے اوپر امن وایمان، سلامتی و اسلام اور اپنی رضا مندی ۔

نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔“ (المعجم الاوسط للطبرانی) اس دعا کو پڑھنا چاہیے، نیز اس وقت مسلمانوں کو دو کام خصوصاً کرنے چاہئیں، بالفاظ دیگر نیا سال ہمیں خاص طور پر دو باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے: ماضی کا بے لاک احتساب اور آگے کا ٹھوس لائحہ عمل ۔ ہمیں دینی و دنیوی دونوں اعتبار سے اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ سال گزشتہ ہم کیا پایا اور کیا کھویا۔ ہم سے کیا غلطیاں ہوئیں۔

محاسبہ کے ساتھ اپنا مواخذہ بھی کرنا چاہئے۔ پھر گزشتہ تجربات کی روشنی میں بہترین مستقبل کی تعمیر اور تشکیل کے منصوبے میں منہمک ہونا چاہئے کہ اپنی کمزوریوں کو دور کرکے ہم نئے سال کو کس طرح کارآمد بنا سکتے ہیں۔ یہ دونوں کام انفرادی سطح میں ہونے چاہئیں اور اجتماعی سطح پر بھی۔ تبھی ہم تابناک مستقل سے بغل گیر ہوسکتے ہیں۔ ورنہ مہ و سال گزرتے جائیں گے۔ مگر ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں

مقبول ترین