کراچی : جامعہ کراچی کے ملازمین کو بنیادی انسانی حقوق میں ایک یعنی بیماری و حادثے کی صورت میں اچھے اسپتال میں علاج کی سرکاری خرچ پر سہولت اب بھی میسر نہیں ہے ۔ انتظامیہ کی واضح ناکامی کے پیش نظر بڑے نجی اسپتال جامعہ کراچی پر اعتماد کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں ۔ مسکن گیٹ کےقریب دکان میں گیس سلینڈر دھماکے میں زخمی ہونے والے دو افسران کے بعد اسٹوڈنٹ ایڈوائزر آفس کے افسر کمپیوٹر آپریٹر گوہر سلیم بھی بروقت اسپتال نہ پہنچنے کی وجہ سے شدید کرب سے گذرے ہیں ۔
تفصیلات کے مطابق جامعہ کراچی کی انتظامیہ سے ملازمین کو جہاں دیگر کئی مسائل و تحفظات کا سامنا ہے وہیں پر ایک اہم مسئلہ بنیادی انسانی حقوق یعنی علاج معالجے کا بھی ہے ۔ ملازمین کو بروقت اور مناسب علاج کی سہولت میسر نہیں ہے ۔ ایک ہفتے میں تین افسران دو مختلف حادثات میں شدید زخمی ہوئے ہیں ۔ جن میں سے تینوں کو بار بار مختلف اسپتالوں میں لے جایا گیا جس کے بعد علاج کے لئے اچھے اسپتال میں لے جا کر علاج کرایا گیا ۔
جامعہ کراچی کے پینل پر موجود بڑے اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین کو کن مسائل کا سامنا ہوتا ہے ، یہ تازہ ترین 2 مثالیں اس کی واضح عکاسی کرتی ہیں ۔ 9 اکتوبر کو جامعہ کراچی کے مسکن گیٹ کے قریب چورنگی پر واقع دکان میں گیس سلینڈر دھماکا ہوا جس میں جامعہ کراچی کے دو افسران شدید زخمی ہو گئے تھے ۔
زخمی ہونے والوں میں شعبہ نفسیات میں گریڈ 17 کے سینیئر ڈیٹا پروسیسنگ افسر وقاص حامد اور شعبہ اکائونٹس میں گریڈ 18 کے اکائونٹ افسر عدنان احمد برکی شامل ہیں ۔ ان دونوں زخمیوں کو 3 مختلف اسپتالوں میں لے جایا گیا ۔ وقاص حامد کو پہلے پٹیل ہسپتال اور پھر ہمدرد ہسپتال ناظم آباد لے جایا گیا اور عدنان برکی کو پہلے پٹیل ہسپتال ، پھر عباسی شہید ہسپتال اور عباسی سے پھر جناح اسپتال لے جایا گیا اور بعد ازاں لیاقت نیشنل ہسپتال منتقل کیا گیا تھا ۔ جہاں وہ زیر علاج رہے اور اب انہیں بیڈ ریسٹ کہا گیا ہے ۔ اگرچہ دونوں زخمیوں کے علاج کے لئے انتظامیہ نے بعد میں ہمدرد اسپتال کو بھی چیک بھیجوا دیا ہے اور لیاقت نیشنل میں علاج کے لئے بھی اسپشل اجازت فراہم کر دی گئی ہے ۔
جامعہ کراچی کے پینل پر کوئی بڑا نجی اسپتال نہ ہونے کیوجہ سے مذکورہ دونوں زخمی افشران کو لمحوں کی تاخیر کے بغیر ایک ہی اسپتال میں منتقل کر کے بروقت ان کا علاج معالجہ شروع کرایا جا سکتا تھا تاکہ دکھ ، کرب و مصیبت کی گھڑی میں ان کو مذید مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔
گزشتہ روز بھی جامعہ کراچی کے اسٹوڈنٹ ایڈوائزر کے دفتر میں گریڈ 17 کے کمپیوٹر آپریٹر کے فرائض انجام دینے والے گوہر سلیم کا یونیورسٹی سے گھر جاتے ہوئے ملیر میں ایکسیڈنٹ ہوا ، جس میں انہیں شدید چوٹیں آئیں ، یونیورسٹی کے ہی ملازم نے انہیں روڈ سے اٹھا کر جناح اسپتال پہنچایا تاہم جناح سے ان کو دوسرے اسپتال لے جانے کا مشورہ دیا گیا ، جس کے بعد انہیں دارالصحت اسپتال لے جایا گیا تھا ۔ جس کے بعد ان کا علاج سول اسپتال کے ٹراما سینٹر میں جاری ہے۔ جہاں ڈاکٹروں نے شدید زخمی ہونے کی وجہ سے ان کا بائیاں ہاتھ کاٹنا تجویذ کیا ہے ۔ شدید ترین چوٹوں سے چور ، نڈھال بزرگ ملازم گوہر سلیم کو ایسی ہی صورت حال میں دوسرے اسپتال پہنچانے کا کشٹ بھی اٹھانا پڑا ۔
مذکورہ دونوں ایمرجنسی نوعیت کے واقعات جامعہ کراچی کی انتظامیہ کو اپنے فیصلوں میں تیزی لانے کے متقاضی ہیں تاکہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں بیماروں اور زخمیوں کو کرب سے نہ گزرنا پڑے ۔ معلوم ہوا ہے کہ اس وقت جامعہ کراچی کے پینل ہر کوئی بھی بڑا مکمل اسپتال موجود نہیں ہے ۔ جب کہ اس سے قبل لیاقت نیشنل اسپتال ، ٹبہ ہارٹ انسٹیٹیوٹ ، ڈائو میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال اور دارالصحت ہسپتال اور بوہری کمیونٹی کا سیفی ہسپتال پینل پر رہے ہیں ۔ تاہم اب صرف این آئی سی وی ڈی اور سیفی ہسپتال ہی موجود ہیں جب کہ ڈائو میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال کے ساتھ چارجز اور لیاقت نیشنل ہسپتال کے ساتھ بروقت ادائیگیوں کے مسائل چل رہے ہیں ۔ لیاقت نیشنل اسپتال کو ادائیگیاں تو کر دی گئی ہیں تاہم اب انہوں نے بروقت ادائیگیوں کی گارنٹی مانگ رکھی ہے ۔
واضح رہے کہ اس وقت بیشتر سرکاری و خود مختار ادارے اپنے ملازمین کو صحت کی سہولیات دینے کے لئے انشورنس پالیسی پر عمل پیرا ہیں جب کہ صوبے کے سب سے بڑے و تاریخی ادارے جامعہ کراچی میں اب بھی پینل کی پرانی روایات کا سلسلہ جاری ہے ۔ انتظامیہ ان مسائل میں الجھ کر پزاروں افسران و ملازمین کو پریشانی سے دو چار کرنے کا سبب بن رہی ہے ۔ تاہم گزشتہ دنوں ٹیچر سوسائٹی کی احتجاجی تحریک میں وزیر اعلی سندھ سے ہونے والی ملاقات کے بعد انجمن کے اساتذہ نے CM سے ملاقات کا احوال جاری کیا تھا اس کے چوتھے نمبر کیمطابق اساتذہ نے ’’ میڈیکل کے حوالے سے ہنگامی طور پر اس مسئلہ کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی ’’ ۔
حیران کن امر یہ ہے کہ خود جامعہ کراچی کی انتظامیہ نے ایک سال میڈیکل انشورنش کا سسٹم نافذ کیا تھا تاہم متعلقہ کمپنی نے ایک سال میں ہی ملازمین کو رلا دیا تھا ، شروع میں تو بلز کلیئر ہوئے تاہم سال کے آخر میں کمپنی نے روایتی انداز اپنا لیا تھا ۔ اسی وجہ سے اساتذہ کے حلقوں می انشورنش پالیسی کی مخالفت بھی کی جاتی ہے ۔
معلوم رہے کہ جامعہ کراچی کے بجٹ کے اعداد و شمار کے مطابق میڈیکل کا کل بجٹ 25 کروڑ روپے سالانہ ہے ۔