کراچی : جامعہ کراچی کی سنڈیکیٹ کا اجلاس بدھ کو منعقد کیا گیا ۔ اجلاس میں مختلف فیصلے متنازعہ نوعیت کے کیئے گئے جن میں نصرت ادریس کی تعیناتی سر فہرست تھی ۔جس پر اجلاس میں ڈھائی گھنٹے تک بحث جاری رہی ۔
تفصیلات کے مطابق جامعہ کراچی کے وائس چانسلر سیکرٹریٹ میں سنڈیکیٹ کا اجلاس منعقد کیا گیا جس میں مختلف ایسے فیصلے بھی کیئے گئے ہیں جو اپنی حیثیت سے نہ صرف غیر قانونی ہیں بلکہ وہ متنازعہ ترین فیصلے ہیں ۔ جس میں سر فہرست بورڈ برائے اعلی تعلیم و تحقیق (BASR) پر نو تعینات پروفیسر ڈاکٹر نصرت ادریس کی تعیناتی کا معاملہ و فیصلہ ہے ۔ نصرت ادریس پر مہربانیوں کی انتہا کرتے ہوئے پہلی بار AIMS انسٹیٹیوٹ کے سربراہ کی حیثیت سے پرنسپل کی سیٹ پر انہیں ممبر سنڈیکیٹ بنایا گیا اور پھر جھگاڑ لگا کر انہیں ASRB کا ممبر بنا دیا گیا ہے ۔
جامعہ کراچی کے کوڈ کے مطابق قانونی طور پر صرف سرونگ پروفیسر ہی بی اے ایس ار کا رکن بن سکتا ہے ۔ جب کہ ڈاکٹر نصرت ادریس ریٹائرڈ پروفیسر ہے ۔ جس کیلئے ذیل میں ثبوت بھی دیا جا رہا ہے ۔ اس حوالے سے نصرت ادریس کی تعیناتی کو چند روز میں عدالت میں چیلنج کیئے جانے کا امکان ہے ۔ جس کیلئے ایجوکیشن ریفارم نیٹ ورک نے تیاری کر لی ہے ۔
اجلاس میں اس بات پر بھی خاصی بحث کی گئی کہ فنانس پلاننگ کمیٹی رپورٹ میں بجٹ کے بجائے صرف دس صفحات کی سمری دی گئی ہے ۔ جس میں سنڈیکیٹ کے دو اراکین ڈاکٹر حارث شعیب اور ڈاکٹر ریاض احمد نے 10 صفحات پر مشتمل اعداد و شمار میں نقائص اور غلط معلومات کی نشاندہی ۔ ان عتراضات کے باوجود مکمل بجٹ کی رپورٹ فراہم نہیں کی گئی اور نہ ہی کسی قسم کی ترمیم کرنے دی گئی جو سنڈیکیٹ کے استحقاق کی خلاف ورزی تھی ۔
جس پر ڈاکٹر ریاض احمد اور ڈاکٹر حارث شعیب نے نوٹ آف ڈسینٹ دیا ۔ سلیکشن بورڈ میں کسی قسم کے ریفر بیک کو وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود عراقی اور ان کے دیگر حمایت یافتہ اراکین نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ اس موقع پر مختلف شعبہ جات جن می بوٹنی، سائیکولوجی، فزیالوجی، اکنامکس میں اہل کو سلیکشن بورڈ سے مسترد کرنے اور زیادتیوں کا نشانہ بنانے پر وائس چانسلر نے یہ جواب تھا کہ سلیکشن بورڈ کا فیصلہ ہے تو ماننا پڑے گا ۔
واضح رہے کہ چالیس کے لگ بھگ اساتذہ 2013 سے اہل ہیں ان کی اہلیت اور اگلی پوسٹیں خالی ہونے کے باوجود بھی ترقی سے محروم کیا جا رہا ہے اور ان کے مستقبل سے متعلق کسی نشاندہی کو تسلیم نہیں کیا گیا ۔ جس پر ڈاکٹر ریاض احمد نے تین نوٹ آف ڈیسنٹ دیئے ہیں ۔ اس حوالے سے صرف پانچ نکات پر بحث ہوئی اور اسی پر اجلاس کو ختم کر دیا گیا ۔
واضح رہے کہ چھ ماہ بعد 10 نکاتی ایجنڈے کا اجلاس تھا ۔ جس کے 400 صفحات تھے ۔ اس میں سے 100 صفحات پر ہی بات ہوئی ۔ اس حوالے سے ڈاکٹر ریاض احمد کا کہنا تھا کہ بورڈز میں زیادتی اور ناانصافی اور بجٹ کو بناء پیش کیے منظور کرنے سے یونیورسٹی کا بہت بڑا نقصان ہو گا اور اساتذہ میں بے چینی و مایوسی میں اضافہ ہو گا ۔ اس پر ٹیچرز سوسائٹی کو نوٹس لینا چاہئے اور یونیورسٹی کے قانون ساز اداروں کا استحقاق بحال کرنا چاہئے ۔