تحریر : فارینہ حیدر
آج سے بیس برس پہلے بھی سندھ کے سرکاری تعلیمی ادارے خصوصاً کراچی کے تعلیمی ادارے، اسکول سے لیکر جامعات تک اپنی شناخت اور اپنا کردار رکھتے تھے لیکن کراچی سے باہر اسکولوں ،کالجوں اور جامعات کا نظام تنزلی کا شکار تھا۔ جس کی وجوہات میں امتحانات میں نقل کا کلچر، جعلی بھرتیاں ،نااہل اُمیدواروں کے تقرریاں گھوسٹ اسکولز وغیرہ وغیرہ تھے لیکن آہستہ آہستہ یہ بدانتظامی کراچی میں بھی نظر آنا شروع ہو گئی ۔
ایجوکیشن وہ واحد فیلڈ تھی جس میں لوگ خصوصاً مرد حضرات آنے سے گھبراتے تھے اور کہتے تھے اس فیلڈ میں آگئے تو بس ٹیچر ہی رہیں گے ، پہلے بچوں کو پڑھانے میں انرجی خرچ کرنی پڑے گی پھر ان کے کلاس ٹیسٹ ،سالانہ امتحانات اور روزانہ کی کاپیاں چیک کرنی پڑے گی اور کام کے حساب سے پیسے کم ملتے ہیں ۔گھر چلانے کے لئیے کوئی دوسری پارٹ ٹائم نوکری بھی نہیں کرسکتے ۔
اس کے بعد وقت کا پہیہ ایسا گھوما کہ سب سے آسان کام ٹیچر بننا ہو گیا، اس شعبے میں پیسے کی ایسی ریل پیل ہوئی کہ چاروں طرف سے پیسہ برسنے لگا ، ہم بھی جب سوچتے ہیں تو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ اچانک ایسا کیا ہوا جو اس شعبے میں چاروں طرف سے پیسہ آنے لگا اور کراچی جیسے شہر میں جو پڑھانے والے مشکل سے ملتے تھے اب ہر دوسرا شخص پڑھانے کے لئیے تیار بیٹھا نظر آنے لگا ۔سب سے زیادہ جس نوکری کی مانگ بڑھی وہ سرکاری استاد کی مانگ بڑھ گئی ۔پرائمری استاد کی معمولی نوکری سے لیکر یونیورسٹی کے استاد تک کی سیٹ کے لیئے لوگ ایک دوسرے کی جان لینے کی درپے ہو گئے ۔
ایجوکیشن کے کلرک اسٹاف تک کے لئیے مارا ماری شروع ہوگئی ۔ اگر آپ کسی سیاستدان سے سبب پوچھے تو فوراً کہے گا کہ غربت بہت بڑھ گئی ہے لہذا لوگ ایک دوسرے کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کر رہے ہیں ۔
جب ہم نے اس بات کی تحقیق کی تو ہمارے علم میں آیا کہ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو 23 سال سے بیرونی امداد بہت مل رہی ہے جس کی وجہ سے این جی اوز کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ، اس پیسے کو استعمال کرنا آسان نہیں ہوتا اس لئیے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کا تصور دیا گیا ،کہا گیا حکومت اکیلے اتنا کام نہیں کر سکتی اس لئیے پرائیویٹ سیکٹر کو فرنٹ میں اپنے ساتھ ملا کر کام کیا جائے گا ۔یہ بیرونی امداد مشرف صاحب کے مارشل لاء سے آنی شروع ہوئی جس کا حجم وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا ۔
مشرف صاحب چونکہ کراچی سے تعلق رکھتے تھے تو کراچی کو وہ اپنا ہوم ٹاؤن سمجھتے ہوئے ، انھوں نے کراچی کے لئیے بہت کام کیئے۔ جس میں کراچی کا انفراسٹرکچر ،ایجوکیشن ،صحت اور صحافت قابل زکر ہے، قوم کو کام کرنے کی بھرپور آزادی دی ۔اب چونکہ ہماری قوم بنیادی طور پر کرپٹ قوم ہے لہذا مشرف صاحب کی دی ہوئی آزادی اور پیسے کو غلط استعمال کرنا شروع کردیا جس کا خمیازہ ہم 14 سال سے بھگت رہے ہیں۔
ہم ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی انتظامی بد عنوانی اور کرپشن پر کئی آرٹیکلز لکھ چکے ہیں لیکن ہمارے ان آرٹیکلز کو پڑھنے کے باوجود حکام بالا نے خرابی پیدا کرنے والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا ۔ اس لئیے آج ہم اس انتہائی حساس شعبے میں صرف سیاسی شخصیات کی زاتی مداخلت پر بات نہیں کرے گے بلکہ ان شخصیات نے سیاسی جماعتوں کی صورت میں اس شعبے میں مداخلت کی ہے اس پر بھی روشنی ڈالے گے۔
کراچی میں تعلیم کے شعبے میں سیاسی مداخلت اس وقت بڑھی جب ایم کیو ایم نے مصطفیٰ کمال کو اپنا مئیر مقرر کیا ۔ اس وقت مئیر کا انتخاب سیاسی جماعت کی شناخت پر ہوتا تھا جیسا کہ آج ہوتا ہے اس لئیے سیاسی جماعت کے کارکن مئیر منتخب ہوئے ۔
مارشل لاء کے بعد مشرف صاحب نے چونکہ بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم یورپین ڈیزائن پر کی تھی جس کے مطابق شہر کا مکمل اختیار منتخب مئیر کے پاس ہوتا اس لئیے ایم کیو ایم کے مئیر کی خوش نصیبی سمجھ لیجئے کہ کراچی کا کنٹرول مکمل طور پر مئیر کے ہاتھ میں آ گیا ۔ اس ایکٹ میں ایک کمی رکھی گئی کہ مئیر کا انتخاب ڈائیریکٹ عوام کے ووٹ سے نہیں کیا بلکہ اسمبلی کے اکثریتی فارمولے پر ہی مئیر منتخب کرایا گیا اب چونکہ مئیر خود بھی ایک سیاسی جماعت کا ہی کارکن تھا تو خود بخود پورا شہر ایک سیاسی جماعت کے کنٹرول میں چلا گیا رہی سہی کسر جماعت اسلامی کے ناظم اعلیٰ نعمت اللہ خان مرحوم کی پٹیشنز نے کر دی ۔انھوں نے جو پٹیشنز لگائی وہ اپنی جماعت کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے لگائی تھی لیکن اس کا فائدہ ایم کیو ایم نے اٹھایا جو کہ آگے چل کران کے ناظم اعلیٰ مصطفیٰ کمال کی سیاسی زندگی کی روح بن گئیں ۔
سن 2003 تک کراچی کی سیاسی جماعتیں اپنے کم پڑھے لکھے کارکنوں کو سرکاری نوکریاں تو دلواتی تھی لیکن اس چیز کا خیال رکھتی تھی کہ اندرون سندھ میں جس طرح چھولے دے کر پاس کرنے کی روایت پڑی ہوئی ہے اور انتہائی کم تعلیم یافتہ لوگوں کو نوکریوں پر رکھ لیا جاتا ہے وہ کام کراچی جیسے بڑے شہر میں نہ کیا جائے کیونکہ شہر کا نظام خراب ہوتا ہے نیز اس کی زمہ داری سیاسی جماعتوں پر ہوتی ، لیکن ایم کیو ایم کے ناظم اعلیٰ نے بہت سے ریکارڈ بنانے کے بعد یہ عالمی ریکارڈ بھی قائم کیا کہ باقاعدہ ایف آئی آرز میں نامزد انتہائی کم تعلیم یافتہ لوگوں کو صرف غیر سرکاری نہیں ،سرکاری نوکریاں بھی دلائی گئی اور پھر ان کو ترقیاں بھی دی گئیں جس میں تعلیم کا شعبہ سر فہرست ہے، آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
ایم کیو ایم کا مئیر شپ کی وجہ سے جو شہر پر کنٹرول ہوا اس نے مافیا کا روپ دھار لیا اور پھر ان کے گروپس بننے لگے جس کی شکل 2016 میں نکل کر آئی ایک گروپ ایم کیو ایم لندن گروپ کہلایا دوسرا گروپ بہادر آباد گروپ ہوا اور تیسرا گروپ پی ایس پی کی شکل میں آیا جس کے چیئرمین مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی پارٹی کے صدر منتخب ہوئے۔
لندن گروپ پر ملک دشمنی کا الزام لگا پھر وہ کلعدم ہوئے لیکن بقایا ایم کیو ایم کو بہادرآباد گروپ کی شکل میں برقرار رکھا گیا ، مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کے گروپ کو پی ایس پی کا نام دیا ۔حیرت انگیز بات ہے یہ تمام گروپ ایک ہی فارم ہاؤس کے انڈے بچے تھے لیکن فارم ہاؤس کے کارکن اور رہنما جو کام کر رہے تھے وہ سب صاف ستھرے ہوگئے اور جو سات سمندر پار ٹیلیفون کے زریعے پارٹی چلاتے تھے وہ اب ملک غدار ہوگئے۔ 2009 سے جو ایک دوسرے کی مخبریوں کی سیاست چل رہی تھی وہ اب بڑھتے بڑھتے عوام کی طرف آگئی اور اس جاسوسی و مخبری نے پورے شہر کا نظام جامد کر دیا۔
آپ سب سوچ رہے ہوں گے ان باتوں کا ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے کیا تعلق لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان سب باتوں کا تعلق ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے ہی ہیں کیونکہ اردو بولنے والے یا مہاجروں کی اکثریت ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے ہی وابستہ تھی ،جس میں %70 فیصد خواتین تھیں یعنی ان گروپس نے خواتین کو ہی اپنا نشانہ بنایا اور انہیں نوکریوں سے برخاست، معطل، پروموشن کاغذات پر دستخط نہ کرنا یا انہیں مستقل نہ کرنے جیسے سنگین مسائل پیدا کیے ۔
ان مسائل کو پیدا کرنے میں ایم کیو ایم کے مئیر مصطفیٰ کمال نے اہم کردار ادا کیا یہ سارے مسائل 2009 کے بعد اور شدت اختیار کر گئے کیونکہ دوسری مرتبہ مئیر شپ دینے کے لیئے پارٹی کی اعلیٰ قیادت تیار نہیں تھی ۔
لیکن پھر ایم کیو ایم نے مصطفیٰ کمال صاحب کو سینیٹر منتخب کرایا مگر اکتوبر 2013 میں الیکشن کمیشن میں اثاثے ظاہر نہ کرنے پر ان کی سیٹ معطل کردی گئی پھر نومبر 2013 میں پارٹی نے تفصیلات نہ دینے پر استعفیٰ لے لیا ،جس کو زاتی وجوہات کا نام دیا گیا۔ سابقہ مئیر نے 2012 سے ایک کام اور کیا،اپنے دور میں لگائی گئی اسکول کالجوں ، جامعات، پارکوں اور ہسپتالوں میں تختیوں کی توسیع کرائی، تاکہ یہ کہا جائے اب بھی شہر پر ان کا کنٹرول ہے ، یعنی اسوقت سے مصطفیٰ کمال صاحب گروپ بندی میں مصروف تھے۔
ہر پارٹی میں گروپ بندیاں ہوتی ہیں ضروری نہیں کہ ایک پارٹی میں سارے ہی ایک جیسے ہوں لیکن جو بے رحمی اور سفاکی کا سلوک کمال صاحب نے کیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔موصوف نے کراچی میں مقامی اور غیر مقامی کی سیاست عروج پر پہنچائی اور پھر اس سیاست کا فائدہ غیر مقامیوں اور اپنے اردگرد کے نااہل افراد کو دیا ۔
سب سے زیادہ ظلم جو کمال صاحب نے کیا وہ جامعہ کراچی اور شیخ زید اسلامک ریسرچ سینٹر کے ملازمین کے ساتھ کیا کیونکہ اردو بولنے والوں کے زہین ترین افراد ان ہی اداروں میں کام کر رہے تھے اس لئیے انھوں نے کراچی کی سرکاری جامعات چاہے وہ وفاقی ہویا صوبائی ان کو اپنا نشانہ بنایا اور اپنے مخالفین پر بدترین الزامات لگا کر ان کا معاشی قتل کرایا ۔
جس میں سر فہرست کراچی یونیورسٹی سے میں یعنی فارینہ حیدر ، شیخ اسلامک ریسرچ سینٹر کی پروفیسر جہاں آراء لطفی ان کے ساتھی ڈاکٹر عمر سیال جو ڈبل پی ایچ ڈی ہیں اور چھہ کتابوں کے مصنف اسی طرح ایک اسٹنٹ پروفیسر تھے جن کا حال ہی میں انتقال ہوگیا ۔اسی طرح ملازمین کی طویل فہرست ہیں جن کو اپنی حکمرانی کے لیئے بدترین سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ یعنی جن کا ملازمتوں سے گھر چلنا تھا کمال صاحب نے لوگوں کا گھر نہیں چلنے دیا یا تو وہ گھر چلانے کے غم میں مر گئے اور یا پھر اگر زندہ ہے ان کی زندگیاں مفلوج کر دی ۔
اب مسائل کو باریک بینی سے دیکھے تو معلوم ہوگا کہ کمال اینڈ کمپنی نے اس وقت پورے کراچی میں سندھی مہاجر اور مقامی وغیر مقامی سیاست کے نام پر ہر بڑی پوسٹ پر انتہائی کرپٹ بد دیانت اور نااہل افراد کو چارج دیا ہوا ہے اسوقت صوبائی حکومت کے ساتھ ایم کیو ایم جس میں اب مصطفیٰ کمال پھر سے شامل ہوگئے ہیں ہر ڈائریکٹر پوسٹ اور ہیڈ پوسٹ پر اپنے ہی لوگ بیٹھائے ہوئے ہیں ۔
جامعہ کراچی کے وی سی خالد عراقی سپریم کورٹ تک سے اپنی وی سی شپ کا کیس ہار چکے ہے لیکن 2019 سے جامعہ کراچی کے وی سی ہے اسی طرح شیخ زید کی عارضی ڈائریکٹر عابدہ پروین جن کو صرف چھ ماہ کا حق تھا وہ 8 سال سے ڈائیریکٹر ہے اور انصاف کا خون کر رہی ہے اسی طرح میرے شعبہ ریاضی کا ہیڈ نجیب عالم خان جس نے صرف چار سال کے قلیل عرصے میں گریڈ 18سے گریڈ 20 تک ترقی کی۔ اسوقت بھی دو سرکاری نوکریاں کر رہا ہے اور 2018 سے شعبے کا چیئرمین ہے جبکہ چیئرمین صرف 3 سال کے لئیے ہوتی ہے اس نے میرا لیکچرار کا نوٹیفکیشن 8 سال سے روکا ہوا ہے بلکہ اس نے تو مجھے میرے شعبے میں ریسرچ ایسوسیٹ کے طور بھی کام نہیں کرنے دیا۔ اس نے 8 سال میں میرا کئیریر اور پیسہ سب برباد کردیا اور آج بھی مجھے میری فیلڈ میں آنے نہیں دے رہا جبکہ ان 8 سالوں میں اس کے کئی اسکینڈلز سامنے آئے لیکن اسے پھر بھی چیئرمین شپ سے نہیں ہٹایا گیا۔
اس پورے منظر نامے کو بغور دیکھے تو معلوم ہوتا کہ پبلک آفس ہولڈ کرنے والا چاہے اقتدار میں ہو یا نہیں دونوں صورتوں میں حکمران ہوتا اور جن کو وہ سب سے زیادہ تکلیف دیتا ہےاس میں سر فہرست سرکاری ملازمین ہوتے ہیں لہذا یہ بہت ضروری ہے کہ ایسے عہدوں پر ان لوگوں کو بٹھایا جائے جن کے کردار اجلے ہوں ورنہ ان کی سابقہ کارکردگی اور کردار دیکھ کر ان کو سیاست سے باہر کرنا چاہیے اور ان کے عہدوں کی مراعات اور نام واپس لے لینا چاہیے ۔پاکستان میں سیاست کبھی بھی کوئی خوبصورت خواب نہیں تھی لیکن 2016 سے جو کراچی والوں کے معاشی قتل کی سیاست کی جارہی ہیں اور سیاست کے نام پر انسانی حقوق کو پامال کیا جارہا ہے وہ انتہائی بھیانک شکل اختیار کر چکا ہے ۔ہمارے جیسے میرٹ پر پورے اترتے ہوئے ملازمین کے ساتھ جو بے رحم و غیر منصفانہ رویہ حکومت نے ان سیاستدانوں کے ساتھ مل کر رکھا ہوا ہے وہ قابلِ مذمت ہے ۔پروین شاکر صاحبہ نے کیا خوبصورت شعر کہا ہے،
ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا
خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح