ہفتہ, جولائی 27, 2024
صفحہ اولتازہ ترینوفاقی اردو یونیورسٹی کی پرنسپل سیٹ عملی طور پر اسلام آباد منتقل...

وفاقی اردو یونیورسٹی کی پرنسپل سیٹ عملی طور پر اسلام آباد منتقل ہو گی ؟

کراچی : مستقل وائس چانسلر کے لیے سرچ کمیٹی کو سندھ سے کوئی اہل امیدوار دستیاب نہیں ہو سکا ؟ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے ؟ اے کیو خلیل اور ڈاکٹر محمد صارم کا اس میں کیا کردار رہا ؟

صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ ”ماڈل یونیورسٹی آرڈیننس“ کے تحت کراچی میں قائم وفاقی گورنمنٹ اردو کالج کے دو کیمپس کو وفاقی گورنمنٹ اردو کالج کو وفاقی اردو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ اس یونیورسٹی کا ایک کیمپس اسلام آباد میں بھی واقع ہے۔ اس آرڈیننس میں یونیورسٹی کی پرنسپل سیٹ اسلام آباد میں ہی تحریر کی گئی لیکن چونکہ اردو یونیورسٹی کی بنیاد کراچی سے شروع ہوئی اور اس کے اولین بانی بابائے اردو مولوی عبدالحق کیمپس کا تعلق بھی کراچی سے تھا لہٰذا عملی طور پر یہ سیٹ کراچی میں ہی قائم رہی اور اس کے بعد آنے والے تقریباً تمام وائس چانسلر کراچی سے ہی یونیورسٹی کے امور انجام دیتے رہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ان وائس چانسلر حضرات کا تعلق بھی کراچی سے ہی تھا۔ لیکن آرڈیننس میں پرنسپل سیٹ اسلام آباد میں ہونا قرار پائی لہٰذا اسلام آباد کی بیوروکریسی کی ہمیشہ سے خواہش رہی کہ کسی طرح اسے عملی طور پر اسلام آباد منتقل کرکے کراچی کو اس سے محروم کر دیا جائے۔

ماڈل یونیورسٹی آرڈیننس سے وابستہ مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اردو یونیورسٹی کی سینیٹ کے سابق رکن ڈاکٹر توصیف احمد خان نے سینیٹ کے ایک اجلاس میں اس آرڈیننس میں دیگر جامعات کی طرز پر ترمیم کی تجویز دی جسے صدرِ پاکستان و چانسلر وفاقی اردو یونیورسٹی ڈاکٹر عارف علوی نے منظور کرتے ہوئے اس آرڈیننس میں ترامیم پر مبنی مسودہ تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ۔

اس کمیٹی کی سربراہی مایہ ناز محقق و رکن سینیٹ ڈاکٹر جعفر احمد کو سونپی گئی جبکہ دیگر اراکین میں جناب اے کیو خلیل (جو کہ اس وقت ڈپٹی چیئر سینٹ بھی تھے )، اراکین سینیٹ ڈاکٹر توصیف احمد خان اور ڈاکٹر ریاض احمد شامل تھے۔

اس کمیٹی نے ایک جامع مسودہ تیار کیا جس میں دیگر جامعات کی طرح سینیٹ میں اساتذہ کی براہِ راست نمائندگی اور اس نمائندگی میں اضافہ، سنڈیکیٹ اور سینیٹ میں افسران کی نمائندگی اور دیگر اہم معاملات کے ساتھ ساتھ پرنسپل سیٹ مستقل طور پر کراچی منتقل کرنے کی ترامیم شامل کی گئیں۔ لیکن یہ مسودہ کبھی سینیٹ میں پیش نا ہو سکا۔

اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس مسودہ میں دیگر جامعات کی طرز پر ڈپٹی چیئر سینیٹ کا عہدہ ختم کرنے کی تجویز شامل کی گئی۔ سابق ڈپٹی چیئر سینیٹ اے کیو خلیل اپنی محض تین سالہ نشست ختم ہونے کے خدشہ کے باعث آرڈیننس میں مستقل تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ بن گئے ۔

سابق ڈپٹی چیئر سینیٹ اے کیو خلیل کا تین سالہ دور اس تناظر میں بھی مختلف رہا کہ اے کیو خلیل نے نا صرف یونیورسٹی کی اندرونی سیاست اور گروہ بندی کو تقویت دی بلکہ ڈاکٹر محمد صارم کی سربراہی میں اساتذہ کے ایک گروہ کی حمایت اور اساتذہ کے دوسرے گروہ کی مخالفت کرتے رہے۔

اے کیو خلیل کا یونیورسٹی میں مداخلت کا پیمانہ اتنا بڑھ گیا کہ ڈاکٹر محمد صارم کی خواہش پر سابق قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر روبینہ مشتاق کو ہٹا کر خود وائس چانسلر بن کر بیٹھ گئے جسے بعد میں سینیٹ نے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کی توثیق نہیں کی۔ بعدازاں جب ڈاکٹر روبینہ مشتاق رجسٹرار کے عہدہ پر فائز تھیں تو اے کیو خلیل ان سے Courtesy Call نا کرنے کا شکوہ کر کے انہیں ہراساں کرتے رہے۔

ڈاکٹر محمد صارم کی خواہش پر ڈپٹی چیئر سینیٹ کے کردار کا خمیازہ اردو یونیورسٹی نے بھگتا اور گزشتہ سال وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت نے جب قومی اسمبلی و ایوانِ بالا یعنی سینیٹ سے نیا مسودہ منظور کروایا تو اس میں ڈپٹی چیئر سینیٹ کی نشست تو ختم کر دی گئی لیکن پرنسپل سیٹ اسلام آباد ہی طے کی گئی۔یہ مسودہ چونکہ صدرِ پاکستان نے منظور کیے بغیر واپس کردیا تھا لہٰذا امکان ہے کہ نئی اسمبلی تشکیل ہونے کے بعد یہ مسودہ دوبارہ جوائنٹ سیشن سے منظور ہو جائے گا اور نیا قانون نافذ ہو جائے گا۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن اور وفاقی وزارت تعلیم کی جانب سے سابق قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کو ہدایت کی گئی کہ وہ فوری طور پر پرنسپل سیٹ اسلام آباد منتقل کریں۔ اسی طرح موجودہ قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر روبینہ مشتاق سے بھی اسی طرح کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب اسلام آباد کی بیوروکریسی اس مقصد میں کامیاب ہو ہی جائے گی۔

مستقل وائس چانسلر کی تقرری کے لیے تشکیل دی گئی سرچ کمیٹی کے کنوینر چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار ہیں جب کہ اساتذہ نمائندوں کی دونوں نشستوں پر ڈاکٹر محمد صارم نے ایک سال تک سرچ کمیٹی کی کارروائی کو آگے نہیں بڑھنے دیا گیا اور ذاتی فوائد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کو سنگین مالی و انتظامی بحران میں مبتلا کر دیا گیا۔ اس صورت حال کا فائدہ ایک بار پھر اسلام آباد کی بیوروکریسی کو ہوا اور ان کا یہ بیانیہ کہ پرنسپل سیٹ اسلام آباد منتقل ہوجانی چاہئے کو تقویت ملی۔

سرچ کمیٹی نے آخرکار جو 5 امیدواران کے نام مستقل وائس چانسلر کے لیے منتخب کیے ہیں ان میں سندھ کا کوئی ایک بھی امیدوار شامل نہیں۔ ان امیدواران میں پروفیسر جہاں بخت، ڈاکٹر مدد علی شاہ، ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری، ڈاکٹر اطہر محبوب اور ڈاکٹر ذاکر ذکریا شامل ہیں ۔

یونیورسٹی اساتذہ کا کہنا ہے کہ پانچ امیدواران میں سندھ کے ایک بھی امیدوار کے منتخب نا ہونے سے یہ بات تقریباً طے ہو چکی ہے کہ روزِ اول سے سندھ میں اردو زبان میں تعلیم دینے والے اس قومی ادارہ کا نظم و ضبط اب مکمل طور پر اسلام آباد سے ہی کنٹرول کیا جائے گا اور اسلام آباد کی بیوروکریسی بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گی۔

اس کا نقصان یقیناً کراچی کیمپس کے ملازمین اور طلبہ کے علاوہ سندھ کے تمام باشندوں کو ہو گا جس کی ذمہ داری اے کیو خلیل، ڈاکٹر محمد صارم اور ان کے دیگر گروپ کے افراد پر بھی عائد ہوتی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ صدر پاکستان و چانسلر وفاقی اردو یونیورسٹی جن کا تعلق کراچی سے ہے وہ اس معاملہ پر اپنا کردار کس حد تک ادا کرتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں

مقبول ترین