ہفتہ, ستمبر 14, 2024
صفحہ اولNewsوفاقی اردو یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ میں عبدالحق اور اسلام آباد کیمپس کی...

وفاقی اردو یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ میں عبدالحق اور اسلام آباد کیمپس کی نمائندگی کیوں نہیں؟

کراچی : کیا وفاقی اردو یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ میں عبدالحق کیمپس اور اسلام آباد کیمپس کو نمائندگی دی جائے گی ۔؟

گلشن اقبال کیمپس سے تعلق رکھنے والے رکن سینیٹ کی جانب سے دیگر کیمپس کے اساتذہ کی رکنیت کی مخالفت سامنے آئی ہے ۔ پروفیسر کی عدم موجودگی میں اسسٹنٹ پروفیسر کو رکنیت دے کر تینوں کیمپس کی نمائندگی کا سینیٹ کی جانب سے طے کردہ اصول پسِ پشت ڈال دیا گیا ۔ 29 اگست کے نامزدکنندہ کمیٹی کے انتخابات میں عبدالحق کیمپس اور اسلام آباد کیمپس کو فیصلہ کرنا ہوگا ۔

وفاقی اردو یونیورسٹی کے مجموعہ قوانین کے مطابق ایک طرف اعلیٰ ترین قانون ساز ادارہ سینیٹ میں دو اساتذہ کی نمائندگی حاصل ہے تو دوسری طرف سنڈیکیٹ میں تینوں کیمپسوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تین اساتذہ نمائندوں کو رکنیت دی جاتی ہے۔ ان اساتذہ نمائندوں کی نامزدگی نامزد کنندہ کمیٹی کی جانب سے کی جاتی ہے۔ اردو یونیورسٹی کے قانون کے مطابق سنڈیکیٹ کو نئے قوانین کی تشکیل اور دیگر معاملات میں انتہائی اہمیت حاصل ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اعلیٰ ترین ادارہ سینیٹ میں اساتذہ نمائندہ کے لیے عہدہ کی کوئی شرط نہیں لیکن سنڈیکیٹ میں رکنیت کے لیے پروفیسر کا عہدہ لازمی قرار دیا گیا۔

گلشن اقبال کیمپس کی جانب سے ہمیشہ اس قانونی خامی کا فائدہ اٹھانے اور عبدالحق کیمپس اور اسلام آباد کیمپس میں کوئی پروفیسر موجود نا ہونے کو جواز بناتے ہوئے صرف گلشن اقبال کیمپس سے ہی اساتذہ کو سنڈیکیٹ میں نمائندگی دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے ۔ ماضی میں جب یہ معاملہ سینیٹ کے اجلاس میں پیش کیا گیا تو رکن سینیٹ نجم العارفین نے عبدالحق کیمپس سے نمائندگی نا دیئے جانے کا نکتہ اٹھاتے ہوئے اس پر اعتراض کیا اور بحث و مباحثہ کے بعد گلشن اقبال کیمپس سے دو نامزدگیوں کی جگہ عبدالحق کیمپس سے ایک نامزدگی کرتے ہوئے ڈاکٹر ممنون احمد خان، اسسٹنٹ پروفیسر کو سنڈیکیٹ میں نامزد کرتے ہوئے تینوں کیمپس سے برابر نمائندگی کا اصول طے کر دیا۔

بعد ازاں گلشن اقبال کیمپس کے اساتذہ نمائندوں کی طرف سے محض ایک کیمپس کی اہم فورمز پر اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کا تسلسل رہا اور ڈاکٹر محمد صارم کی سرپرستی میں قائم اساتذہ کے ایک گروپ نے حالیہ سرچ کمیٹی میں بھی صرف گلشن اقبال کیمپس کے ہی اپنے گروپ سے تعلق رکھنے والے دو اساتذہ نمائندگی دی جس پر دیگر دونوں کیمپس کی جانب سے سخت تنقید ہوئی۔

اسی طرح جب نامزد کنندہ کمیٹی 9 جون 2021ء میں سینیٹ کے طے کردہ تینوں کیمپس سے نمائندگی کے اصول کے مطابق گلشن اقبال کیمپس سے پروفیسر ڈاکٹر زرینہ علی کے علاوہ عبدالحق کیمپس سے ڈاکٹر شاہد اقبال اور اسلام آباد کیمپس سے ڈاکٹر حافظ عبدالرشید کو نامزد کر کے اس کی منظوری کے لیے سینیٹ کے اجلاس 48 کے دوسرے سیشن میں پیش کیا گیا تو ڈاکٹر محمد صارم گروپ کے ہی قریب سمجھے جانے والے انجمن ترقی اردو کے صدر کی حیثیت سے رکنِ سینیٹ کی جانب سے عبدالحق کیمپس اور اسلام آباد کیمپس کی نامزدگی پر اعتراض اٹھایا گیا تو نتیجتاً صرف گلشن اقبال کیمپس سے نامزدگی کو منظور کرتے ہوئے عبدالحق کیمپس اور اسلام آباد کیمپس کی نامزدگی کا معاملہ شیخ الجامعہ کو ریفر کر دیا گیا اور آج 3 سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی دونوں کیمپس سنڈیکیٹ میں نامزدگی سے محروم ہیں۔

سینیٹ 48 کے دوسرے سیشن کے فیصلہ کے مطابق جب یہ معاملہ سینیٹ کے 50ویں اجلاس میں پیش کیا گیا تو فیصلہ کیا گیا کہ اس شیخ الجامعہ اس کی منظوری سرکولیشن کے ذریعہ حاصل کر لیں۔ اس پر عملدرآمد کے لیے جب شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری نے دیگر دونوں کیمپس میں نامزدگی کے لیے ڈاکٹر شاہد اقبال، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ڈاکٹر احتشام الحق پھڈا ایسوسی ایٹ پروفیسر کی سرکولیشن کے ذریعہ منظوری حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو ایک بار پھر گلشن اقبال کیمپس سے نامزد کیے گئے استاد ڈاکٹر فرحان شفیق اور ان کے قریبی رکنِ سینیٹ ڈاکٹر خالد انیس کی جانب سے اس پر اعتراض کرتے ہوئے بالواسطہ طور پر دیگر دونوں کیمپس کو سنڈیکیٹ میں نمائندگی دینے کے راستہ میں رکاوٹ کھڑی کر دی گئی ۔

جس کے بعد یہ معاملہ ایک بار پھر التواء کا شکار ہو گیا اور اس وقت بھی صرف گلشن اقبال کیمپس کو سنڈیکیٹ میں نمائندگی حاصل ہے جبکہ گلشن اقبال کیمپس کی مخالفت کی وجہ سے دیگر دونوں کیمپس اس سے محروم ہیں۔
29 اگست 2024ء کو منعقد ہونے والے نامزد کنندہ کمیٹی کے انتخابات میں سب سے اہم سوال اب یہ ہو گا کہ گلشن اقبال کیمپس سے نامزد کنندہ کمیٹی کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد عبدالحق کیمپس اور اسلام آباد کیمپس کے خلاف کردار ادا کرنے کے باوجود کیا یہ دونوں کیمپس اب دوبارہ گلشن اقبال کیمپس کے اساتذہ پر اعتبار کریں گے؟ اس سوال کا جواب 29 اگست کو مل جائے گا۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں

مقبول ترین