تحریر: مولانا محمد داؤد آزاد
زلزلے انسانی زندگی پر زلزلے کے اثرات دیگر قدرتی آفات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ نفسیاتی ماہرین کا تجزیہ ہے کہ سے زندہ بچ جانے والے افراد پر برسوں شدید حزن و ملال،خوف اور ڈراؤنے خواب مسلط رہتے ہیں۔جب بھی دنیا کے کسی بھی خطے میں زلزلے کا اندوہ ناک واقعہ رونما ہو تو معاشرے میں مخصوص سوالات کی گونج کچھ عجیب انداز سے شروع ہو جاتی ہے جن میں سے اہم چند سوالات یہ ہیں۔کہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟آتش فشاں پہاڑ کیوں پھٹتے ہیں؟اور دنیا کے کچھ حصوں میں اس قسم کے واقعات زیادہ کیوں رونما ہوتے ہیں؟قدیم ادوار میں ان سوالات کے متعلق جو خیالات پائے جاتے تھے ان میں سے چند معروف جوابات یہ ہیں کہ:عیسائی پادریوں کا خیال تھا کہ زلزلے خدا کے باغی اور گنہگار انسانوں کے لئے اجتماعی سزا اور تنبیہ ہوتے ہیں۔بعض دوسری قدیم اقوام یہ سمجھتی تھیں کہ مافوق الفطرت قوتوں کے مالک دیوہیکل درندے جو زمین کے اندر رہتے ہیں، زلزلے پیدا کرتے ہیں۔قدیم جاپانیوں کا عقیدہ تھا کہ ایک طویل القامت چھپکلی زمین کو اپنی پشت پر اٹھائے ہوئے ہے اور اس کے ہلنے سے زلزلے آتے ہیں ۔ ایسا ہی عقیدہ امریکی ریڈ انڈینز کا بھی تھا کہ زمین ایک بہت بڑے کچھوے کی پیٹھ پر دھری ہوئی ہے اور کچھوے کے حرکت کرنے سے زلزلے آتے ہیں۔
سائیبیریا کے قدیم باشندے زلزلے کی ذمہ داری ایک قوی الجثہ برفانی کتے کے سر تھوپتے ہیں، جو ان کے بقول جب اپنے بالوں سے برف جھاڑنے کے لئے جسم کو جھٹکے دیتا ہے تو زمین لرزنے لگتی ہے ۔ ہندوؤں کے قدیم نظریات یہ ہیں کہ زمین ایک گائے کے سینگوں پر رکھی ہوئی ہے، جب وہ سینگ تبدیل کرتی ہے تو زلزلے آتے ہیں۔قدیم یونانی فلسفی اور ریاضی داں فیثا غورث کا خیال تھا کہ جب زمین کے اندر مردے آپس میں لڑتے ہیں تو زلزلے آتے ہیں ۔ارسطو کی لاجک یہ تھی کہ جب زمین کے اندرسے گرم ہوا باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو زلزلے پیدا ہوتے ہیں۔ افلاطون کا نظریہ بھی کچھ اسی قسم کا تھا کہ زیرِ زمین تیز و تند ہوائیں زلزلوں کو جنم دیتی ہیں۔
تقریبا 70 سال پہلے کے سائنسدانوں کا خیال یہ تھا کہ زمین ٹھنڈی ہورہی ہے اور اس عمل کے نتیجے میں اس کا غلاف کہیں کہیں چٹخنے لگتا ہے،جس سے زلزلے آتے ہیں۔ کچھ دوسرے سائنسدانوں کا کہنا یہ تھا کہ زمین کے اندرونی حصے میں آگ کا جہنم دہک رہا ہے اور اس سے بے پناہ حرارت کی وجہ سے زمین غبارے کی طرح پھولتی ہے۔یہ ہیں ماضی میں زلزلوں کے آنے کی مختلف توجیہات۔
دور حاضر میں سب سے مقبول نظریہ ”پلیٹ ٹیکٹونکس” کا ہے جس کی معقولیت کو دنیا بھر کے جیولوجی اور سیسمولوجی کے ماہرین نے تسلیم کرلیا ہے۔ اس نظرئیے کے مطابق زمین کی بالائی پرت اندرونی طور پر مختلف پلیٹوں میں منقسم ہے۔ جب زمین کے اندرونی میں موجود پگھلے ہوئے مادے ،جسے جیولوجی کی زبان میں میگما Magma کرے حصے میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے تو یہ پلیٹیں بھی اس کے جھٹکے کہتے ہیں سے یوں متحرک ہوجاتی ہیں جیسے کنویئر بیلٹ پر رکھی ہوئی ہوں، میگما ان پلیٹوں کو کھسکانے میں ایندھن کا کام کرتا ہے۔ یہ پلیٹیں ایک دوسرے کی جانب سرکتی ہیں، اوپر ، نیچے، یا پہلو میں ہوجاتی ہیں یا پھر ان کا درمیانی فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔دوسرا سوال یہ آتش فشانی کا عمل زیادہ تر کن علاقوں میں رونما ہوتا ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ جن علاقوں میں ان پلیٹوں کی پیداوار Jointہوتا ہے کہ واقع ہیں،ارضی پلیٹوں کی حالت میں فوری تبدیلی سے سطح میں دراڑیں یا فالٹ Fault پیدا ہوتے ہیں جن میں پیدا ہونے والے حرکات سے زلزلہ آتا ہے۔ زیرِزمین جو مقام میگما کے دبا کا نشانہ بنتا ہے، اسے محور Focus اور اس کے عین اوپر کے مقام کو جہاں اس جھٹکے کے فوری اثرات پڑتے ہیں، زلزلے کا مرکز Epicentre کہا جاتا ہے۔زلزلے کی لہریں پانی میں پتھر گرنے سے پیدا ہونے والی لہروں کی طرح دائرے کی شکل میں چاروں جانب یلغار کرتی ہیں۔ ان سے ہونے والی تباہی کا تعلق جھٹکوں کی ریکٹر اسکیل پر شدت، فالٹ یا دراڑوں کی نوعیت، زمین کی ساخت اور تعمیرات کے معیار پر ہوتا ہے۔ اگر زلزلہ زمین کی تہہ میں آئے تو اس سے پیدا ہونے والی بلند موجیں پوری رفتار کے ساتھ چاروں طرف چلتی ہیں اور ساحلی علاقوں میں سخت تباہی پھیلاتی ہیں۔زلزلوں کی اقسام۔زلزلے دو قسم کے ہوتے ہیں، قدرتی وجوہات کی وجہ سے آنے والے زلزلوں کو ٹیکٹونک Tectonic زلزلے کہا جاتا ہے جبکہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے آنے والے زلزلے نان ٹیکٹونک Non Tectonic کہلاتے ہیں۔ ٹیکٹونک زلزلے انتہائی شدت کے بھی ہوسکتے ہیں۔ جبکہ نان ٹیکٹونک عام طور پر معمولی شدت کے ہی ہوتی ہیں۔ ایک ہی زلزلے کا مختلف علاقوں پر اثر مختلف ہوسکتا ہے چنانچہ کسی خطے میں تو بہت زیادہ تباہی ہوجاتی ہے لیکن دوسرے علاقے محفوظ رہتے ہیں۔دنیا کے کچھ حصوں میں اس قسم کے واقعات زیادہ کیوں رونما ہوتے ہیں …… ؟؟اس کا جواب یہ سمجھیں کہ دنیا کے وہ خطے جہاں زلزلے زیادہ پیدا ہوتے ہیں، بنیادی طور پر 3 پٹیوں Belts میں واقع ہیں۔1- پہلی پٹی جو کہ مشرق کی جانب ہمالیہ کے پہاڑوں سے ملی ہوئی ہے، انڈیا اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں ہمالیہ کے پہاڑوں سے ہوتی ہوئی افغانستان، ایران اور پھر ترکی سے گزرتی ہوئی براعظم یورپ اور یوگوسلاویہ سے فرانس تک یعنی کوہ ایلپس تک پہنچ گئی ہے۔2-دوسری پٹی براعظم شمالی امریکا کے مغربی کنارے پر واقع الاسکا کے پہاڑی سلسلے سے شروع ہوکر جنوب کی طرف Rocky mountains کو شامل کرتے ہوئے میکسیکو سے گزر کربراعظم جنوبی امریکہ کے مغربی حصے میں واقع ممالک کولمبیا، ایکواڈور اور پیرو سے ہوتی ہوئی چلی تک پہنچ جاتی ہے۔3-جبکہ تیسری پٹی براعظم ایشیا کے مشرق پر موجود جاپان سے شروع ہوکر تائیوان سے گزرتی ہوئی جنوب میں واقع جزائر فلپائن، برونائی، ملائیشیا اور انڈونیشیا تک پہنچ جاتی ہے۔جغرافیہ کے سائنسدانوں نے زمین کے کچھ حصوں کو Zone of Subduction کا نام دیا ہے، جہاں زلزلہ کے زیادہ خطرات موجود رہتے ہیں۔ مثلا بحر الکاہل Pacific Ocean کے چاروں طرف موجوز زون کو Firy Ring of Pacific کہتے ہیں۔ اس زون میں دو پلیٹیں جب آپس میں ملتی ہیں تو کوئی ایک دبا کی وجہ سے نیچے چلی جاتی ہے۔ نیچے بہت زیادہ درجہ حرارت اور کیمیکل ری ایکشن کی وجہ سے وہ پلیٹ پگھل جاتی ہے۔ اس سے بننے والی انرجی آتش فشاں کی صورت میں نکلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ Firy Ring of Pacific میں جو ممالک ہیں مثلا الاسکا، سائوتھ امریکہ میں انڈیز کا حصہ، انڈونیشیا، چائنہ اور جاپان وغیرہ میں، وہاں زلزلے زیادہ آتے ہیں۔
کیا پاکستان میں بھی ایسے علاقے موجود ہیں جہاں زلزلے کے خطرات ہر وقت منڈلاتے رہتے ہیں؟جی ہاں بالکل !آپ کے لیے ہاں میں ہے،پاکستان کے کچھ شہر اور علاقے زلزلہ کے فالٹس پر یا اس کے قریب ہی واقع ہیں۔وہاں لاکھوں انسان آباد ہیں ،ایسے شہر یا علاقے جو فالٹس کے نزدیک موجود ہیں وہاں کے لوگ زلزلہ سے بچا کے لئے حفاظتی اقدامات کے طور پر کیا کریں؟.ہمارے خیال میں انسان کو اپنی زمین سے ، جہاں وہ بستا ہے،قدرتی طور پر ایک قلبی وابستگی ہوجاتی ہے اور جیوگرافی کی سائنس بھی اپنی زمین سے اس انسانی وابستگی کو تسلیم کرتی ہے۔یہ نہیں ہوسکتا کہ زلزلہ کے خوف سے کوئی اپنا خطہ چھوڑ دے ،جاپان میں سب سے زیادہ زلزلہ آتے ہیں،کہا جاتا ہے کہ جاپان میں روزانہ کئی زلزلے آتے ہیں لیکن جاپان کے لوگ اپنے ملک میں ہی رہتے ہیں ،جاپانیوں نے زلزلے سے خوف کھانے کے بجائے خود کو زلزلوں کی تباہی سے محفوظ رکھنے کے لئے سائنسی اصولوں کے مطابق آبادیاں بسائی ہیں،جاپان کے شہروں میں کئی کئی منزلہ سڑکیں اور عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں اور یہ تمام تعمیرات زلزلہ سے بچا کے سائنسی اصولوں کو مدِنظر رکھ بنائی گئی ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اکتوبر 2005 اور اکتوبر 2008 کے زلزلوں کی تباہی کو پیش نظر رکھتے ہوئے سائنسی اصولوں کے مطابق تعمیرات کی ضرورت کو اب محسوس کرنا انتہائی ضروری ہو گیا ہے۔
ہمارے تین سوال اپنے جوابات کے ساتھ مکمل ہوئے۔
اب شرعی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں کہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟
قرآن کریم نے زلزلے کا ذکر کن پہلوؤں سے اجاگر فرمایا ؟
زلزلے اور قرآن کریم کا اعجاز کیا ہے ؟
قرآن ایک زندہ اور قیامت تک باقی رہنے والا معجزہ ہے :تمام انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات صرف ان کی حیات تک معجزہ ہوتے لیکن قرآن کا معجزہ بعد وفات رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اسی طرح معجزہ کی حیثیت میں باقی ہے آج بھی ایک ادنٰی مسلمان ساری دنیا کے اہل علم و دانش کو للکار کر دعوٰی کرسکتا ہے کہ اس کی مثال نہ کوئی پہلے لایا اور اس کا نہ آج لا سکتا ہے اور جس کو ہمت ہو پیش کرکے دکھلائے،شیخ جلال الدین سیوطی مفسر جلالین نے اپنی کتاب خصائص کبرٰی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو معجزوں کے متعلق لکھا ہے کہ قیامت تک باقی ہیں ان میں سے ایک قرآن کا معجزہ ہے ،قرآن ایک زندہ اور ہمیشہ باقی رہنے والا معجزہ ہے جیسے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں اس کی نظیر یا مثال پیش نہیں کی جاسکی آج بھی نہیں کی جاسکتی۔
وجوہ اعجاز قرآنی :
پہلی بات کہ قرآن کو معجزہ کیوں کہا گیا ؟ اور وہ کیا وجوہ ہیں جن کے سبب ساری دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہے اس پر قدیم وجدید علماء نے مستقل کتابیں لکھی ہیں اور ہر مفسر نے اپنے اپنے طرز میں اس مضمون کو بیان کیا ہے ،اس جگہ سب سے پہلے غور کرنے کی چیز یہ ہے کہ یہ عجیب و غریب کل علوم کی جامع کتاب، کس جگہ، کس ماحول میں، اور کس پر نازل ہوئی اور کیا وہاں کچھ ایسے علمی سامان موجود تھے جن کے ذریعہ دائرہ اسباب میں ایسی جامع بےنظیر کتاب تیار ہوسکے، جو علوم اوّلین و آخرین کی جامع اور انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کے متعلق بہترین ہدایت پیش کرسکے جس میں انسان کی جسمانی اور روحانی تربیت کا مکمل نظام ہو اور تدبیر منزل سے لے کر سیاست ممالک تک ہر نظام کے بہترین اصول ہوں، جس سرزمین اور جس ذات پر یہ کتاب مقدس نازل ہوئی اس کی جغرافیائی کیفیت اور تاریخی حالت معلوم کرنے کے لیے آپ کو ایک ریگستانی خشک اور گرم علاقہ سے سابقہ پڑے گا جس کو بطحاء مکہ کہتے ہیں اور جو نہ زرعی ملک ہے نہ صنعتی نہ اس ملک کی آب وہوا ہی کچھ خوشگوار ہے جس کے لیے باہر کے آدمی وہاں پہنچنے کی رغبت کریں نہ راستے ہی کچھ ہموار ہیں جن سے وہاں تک پہنچنا آسان ہو اکثر دنیا سے کٹا ہوا ایک جزیرہ نما ہے جہاں خشک پہاڑوں اور گرم ریگ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور دور تک نہ کہیں بستی نظر آتی ہے نہ کوئی کھیت نہ درخت، اس پورے خطہ ملک میں کچھ بڑے شہر بھی نہیں چھوٹے چھوٹے گاؤں اور ان میں اونٹ بکریاں پال کر اپنی زندگی گذارنے والے انسان بستے ہیں اس کے چھوٹے دیہات کا تو دیکھنا کیا جو برائے نام چند شہر کہلاتے ہیں ان میں بھی کسی قسم کے علم وتعلیم کا کوئی چرچا نہیں نہ وہاں کوئی اسکول اور کالج ہے نہ کوئی بڑی یونیورسٹی یا دارالعلوم، وہاں کے باشندوں کو اللہ تعالیٰ نے محض قدرتی اور پیدائشی طور پر فصاحت و بلاغت کا ایک فن ضرور دے دیا ہے جس میں وہ ساری دنیا سے فائق اور ممتاز ہیں وہ نثر اور نظم میں ایسے قادر الکلام ہیں کہ جب بولتے ہیں تو رعد کی طرح کڑکتے اور بادل کی طرح برستے ہیں ان کی ادنٰی ادنٰی چھوکریاں ایسے فصیح وبلیغ شعر کہتی ہیں کہ دنیا کے ادیب حیران رہ جائیں، لیکن یہ سب کچھ ان کا فطری فن ہے جو کسی مکتب یا مدرسہ میں حاصل نہیں کیا جاتا، غرض نہ وہاں تعلیم و تعلم کا کوئی سامان ہے نہ وہاں کے رہنے والوں کو ان چیزوں سے کوئی لگاؤ یا دل بستگی ہے ان میں کچھ لوگ شہری زندگی بسر کرنے والے ہیں تو وہ تجارت پیشہ ہیں مختلف اجناس مال کی درآمد برآمد ان کا مشغلہ ہے،اس ملک کے قدیم شہر مکہ کے ایک شریف گھرانہ میں وہ ذات مقدّس پیدا ہوتی ہے جو مہبط وحی ہے جس پر قرآن اترا ہے یہ امی محض چالیس سال تک مکہ میں اپنی برادری کے سامنے رہتے ہیں کسی دوسرے ملک کا سفر بھی نہیں کرتے جس سے یہ خیال پیدا ہوسکے کہ وہاں جاکر علوم حاصل کئے ہوں گے صرف ملک شام کے دو تجارتی سفر ہوئے وہ بھی گنے چنے چند دن کے لیے جس میں اس کا امکان نہیں، اس امی محض ذات مقدس کی زندگی کے چالیس سال مکہ میں اپنی برادری میں اس طرح گذرے کہ نہ کبھی کسی کتاب یا قلم کو ہاتھ لگایا نہ کسی مکتب میں گئے نہ کسی مجلس میں کوئی نظم وقصیدہ ہی پڑھا ٹھیک چالیس سال کے بعد ان کی زبان مبارک پر وہ کلام آنے لگا جس کا نام قرآن ہے جو اپنی لفظی فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے اور معنوی علوم وفنون کے لحاظ سے محیّر العقول کلام ہے اگر صرف اتنا ہی ہوتا تو بھی اس کے معجزہ ہونے میں کسی انصاف پسند کو کیا شبہ رہ سکتا ہے مگر یہاں یہی نہیں بلکہ اس نے ساری دنیا کو تحدد کی (چیلنج) دیا کہ کسی کو اس کے کلام الہی ہونے میں شبہ ہو تو اس کا مثل بنا لائے،اب ایک طرف قرآن کی یہ تحدی اور چیلنج اور دوسری طرف ساری دنیا کی مخالف طاقتیں جو اسلام اور پیغمبر اسلام کو شکست دینے کے لیے اپنی مال، جان، اولاد، آبرو، سب گنوانے کو تیار ہیں مگر اتنا کام کرنے کے لیے کوئی جرأت نہیں کرتا کہ قرآن کی ایک چھوٹی سی سورت کی مثال بنا لائے فرض کرلیجئے کہ یہ کتاب بےمثال و بےنظیر بھی نہ ہوتی جب بھی ایک امیّ محض کی زبان سے اس کا ظہور اعجاز قرآن اور وجوہ اعجاز کی تفصیل میں جائے بغیر بھی قرآن کریم کے معجزہ ہونے کے لیے کم نہیں جس کو ہر عالم و جاہل سمجھ سکتا ہے۔
امم سابقہ کے واقعات کا اعجاز :یہاں اعجاز قرآنی کی صورت یہ ہے کہ اس میں پچھلی امتوں اور ان کی شرائع اور تاریخی حالات کا ایسا صاف تذکرہ ہے کہ اس زمانہ کے بڑے بڑے علماء یہود ونصارٰی جو پچھلی کتابوں کے ماہر سمجھے جاتے تھے ان میں بھی اتنی معلومات نہ تھیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو کبھی نہ کسی مکتب میں قدم رکھا نہ کسی عالم کی صحبت اٹھائی نہ کسی کتاب کو ہاتھی لگایا پھر یہ ابتداء دنیا سے آپ کے زمانہ تک تمام اقوام عالم کے تاریخی حالات اور نہایت صحیح اور سچے سوانح اور ان کی شریعتوں کی تفصیلات کا بیان ظاہر ہے کہ بجز اس کے نہیں ہوسکتا کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ ہی کا ہو اور اللہ تعالیٰ نے ہی آپ کو یہ خبریں دی ہوں۔
غیب اور آئندہ پیش آنے والے واقعات کا اعجاز:
اعجاز قرآنی کی ایک صورت یہ ہے کہ اس میں غیب کی اور آئندہ پیش آنے والے واقعات کی بہت سی خبریں ہیں جو قرآن نے دیں اور ہوبہو اسی طرح واقعات پیش آئے جس طرح قرآن نے خبر دی تھی مثلا قرآن نے خبر دی کہ روم وفارس کے مقابلہ میں ابتداءً اہل فارس غالب آئیں گے اور رومی مغلوب ہوں گے لیکن ساتھ ہی یہ خبر دی کہ دس سال گذرنے نہ پائیں گے کہ پھر رومی اہل فارس پر غالب آجائیں گے مکہ کے سرداروں نے قرآن کی اس خبر پر حضرت صدیق اکبر سے ہار جیت کی شرط لگا لی اور پھر ٹھیک قرآن کی خبر کے مطابق رومی غالب آگئے تو سب کو اپنی ہار ماننا پڑی اور ہارنے والے پر جو مال دینے کی شرط تھی وہ مال ان کو دینا پڑا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مال کو قبول نہیں فرمایا کیونکہ وہ ایک قسم کا جوا تھا اسی طرح اور بہت سے واقعات اور خبریں ہیں جو امور غیبیہ کے متعلق قرآن میں بتلائی گئیں اور ان کی سچائی بالکل روز روشن کی طرح واضح ہوگئی،اسی طرح زمین مین زمین والوں کی نافرمانی پر اللہ تعالی کے عذاب کے شکلوں میں سے ایک شکل زلزلے کی بھی ہےجب انسان ایسے متعدی گناہوں کو عام طور سے کرنے لگ جائی جس سے رب کی دھرتی کا نظام خراب ہو رہا ہو تو اللہ تعالی کی پکڑ کا ایک نظم زلزلوں کی صورت میں عذاب کا آنا بھی ہےاسی طرح وہ علوم و معارف جن کا احاطہ نہ آج تک کسی کتاب نے کیا ہے نہ آئندہ امکان ہے کہ اتنے مختصر حجم اور محدود کلمات میں اتنے علوم وفنون جمع کئے جاسکیں جو تمام کائنات کی دائمی ضروریات کو حاوی اور انسان کی زندگی کے ہر شعبہ اور ہر حال سے متعلق پورا مرتب اور بہترین نظام پیش کرسکے شخصی پھر عائلی زندگی سے لے کر قبائلی اور شہری زندگی تک اور پھر عمرانیات واجتماعیات اور سیاست ممالک کے ہر پہلو پر حاوی نظام پیش کردے،پھر صرف نظری اور علمی طور پر نظام پیش کرنا ہی نہیں عملی طور پر اس کا رواج پانا اور تمام نظامہائے دنیا پر غالب آکر قوموں کے مزاج، اخلاق، اعمال، معاشرت اور تمدن میں وہ انقلاب عظیم پیدا کرنا جس کی نظیر نہ قرون اولیٰ میں مل سکتی ہے نہ قرون مابعد میں یہ حیرت انگیز انقلاب کیا کسی انسان کی قدرت اس کی حکمت عملی کا نتیجہ ہوسکتا ہے ؟ خصوصاً جبکہ وہ انسان بھی امی اور اس کی قوم بھی امی ہو۔
ایک منصف مزاج انسان کو اس پر بات پر مجبور کردینے کے لیے کافی ہے کہ قرآن کو اللہ تعالیٰ کا کلام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عظیم الشان معجزہ تسلیم کرلے،بلاوجہ تعلیمات قرآنیہ کا بوجھ اپنے گلے نہ ڈالے ۔ اس جگہ مستشرقین یورپ کےدرجنوں چند اقوال بطور نمونہ پیش کئےجا سکتے ہیں لیکن ہم فقط ایک قول پر اکتفا کرتے ہیں جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ باعتبار فصاحت و بلاغت ہونے کا اقرار صرف مسلمانوں نے نہیں ہر زمانے کے منصف مزاج غیر مسلموں نے بھی کیا ہے۔انگلستان کے نامور مورخ ڈاکٹر گبن اپنی مشہور تصنیف (سلطنت روما کا انحطاط وزوال)
قرآن کی نسبت بحر اٹلانٹک سے لے کر دریائے گنگا تک نے مان لیا ہے کہ یہ پارلیمنٹ کی روح ہے قانونی اساس ہے اوراس کے بیان کردہ اصول صرف مذہب ہی کے لیے نہیں بلکہ احکام تعزیرات کے لیے اور قوانین کے لیے بھی ہیں جن سے نوع انسان کی زندگی وابستہ ہے جن کو حیات انسانی کی ترتیب وتنسیق سے گہرا تعلق ہے حقیقت یہ ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت سب پر حاوی ہے یہ شریعت ایسے دانشمندانہ اصول اور اس قسم کے قانون انداز پر مرتب ہوئی ہے کہ سارے جہان میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔
قرآن نے ساری دنیا کو اپنی مثال لانے کا چیلنج دیا تھا اور کوئی نہ لا سکا، آج بھی ہر مسلمان دنیا کے ماہرین علم وسیاست کو چیلنج کر کے کہہ سکتا ہے کہ پوری دنیا کی تاریخ میں ایک واقعہ ایسا دکھلا دو کہ ایک بڑے سے بڑا ماہر حکیم فلاسفی کھڑا ہو اور ساری دنیا کے عقائد ونظریات اور رسوم و عادات کے خلاف ایک نیا نظام پیش کرے اور اس کی قوم بھی اتنی جاہل گنوار ہو پھر وہ اتنے قلیل عرصہ میں اس کی تعلیم کو بھی عام کردے اور عملی تنفیذ کو بھی اس حد پر پہنچا دے کہ اس کی نظیر آج کے مضبوط ومستحکم نظاموں میں بھی ملنا ناممکن ہے۔
قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں رسول اللہ نے جو تعلیمات ارشاد فرمائی ہیں ان کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب الہٰی مختلف قوموں پر مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا رہتا ہے جس میں زلزلے، طوفان، سیلاب، قحط و خشک سالی کے علاوہ دیگر زمینی و آسمانی آفات و مصیبتیں شامل ہیں جس کا بنیادی سبب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی اور قوموں کی اپنی بداعمالیوں کو قرار دیا گیا ہے۔ جس کا ذکر قرآن حکیم کے مختلف مقامات میں بیان بھی کیا گیا ہے جن میں سے چند مقامات یہ ہیں۔
سورہ روم میں ارشاد خداوند ی ہے:
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ
(الروم، 30: 41)
ظاہر ہوگیا فساد خشکی میں اور دریا میں لوگوں کے اعمال کی وجہ سے تاکہ اللہ انھیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھا دے، تاکہ وہ لوگ باز آجائیں۔(عثمانی)
زلزلے اور قدرتی آفات محض عذاب الہٰی ہی نہیں بلکہ یہ بندوں پر آزمائش کی صورت میں بھی نازل ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار اور بخشش و مغفرت کے ساتھ رجوع کرنا چاہئے،زلزلہ قرب قیامت کی بڑی نشانی ہے اور قرآن کریم میں اللہ تعالی نے مکمل سورت (الزلزال)اس حوالے سے نازل فرمائی:
مفسرین کرام نے سور ہ زلزال کی آیات مقدسہ میں ایک ایسے زلزلے کی نشاندہی فرمائی ہے جو مکمل روئے زمین پر آئے گا اور قیامت برپا کردے گا اور اس ہیبت ناک اور خوفناک زلزلے سے زمین کا کوئی حصہ بھی محفوظ نہیں رہے گا جس کے نتیجے میں پوری زمین کو ہموار کردیا جائے گا اور یہ نفخ ثانی کے بعد ہوگا مگر اس سے قبل چھوٹے چھوٹے زلزلے آئیں گے جو قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہوں گے اور جو کثرت سے رونما ہوں گے۔ا حادیث کی روشنی میں زلزلے کی بنیادی وجوہات جس سے زلزلے کے اسباب کو سمجھنا یقینا آسان ہوجائے گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک علم کو اٹھا نہیں لیا جاتا۔ اس وقت کثرت سے زلزلے آئیں گے۔ ایک زمانہ دوسرے کے قریب تر ہوگا، فتنہ و فساد ظاہر ہوگا، ہرج میں اضافہ ہوگا یہاں تک کہ مال و دولت کی فراوانی اس طر ح ہوگی جیسے ابل پڑے گی۔(بخاری شریف )
ایک اور روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت کی نشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جب میری قوم میں یہ چند باتیں عام ہو جائیں گی تو اس زمانہ میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا انتظار کرو، زمین میں دھنس جانے اور صورتیں مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو اور ان عذابوں کے ساتھ دوسری ان نشانیوں کا بھی انتظار کرو جو پے در پے اس طرح ظاہر ہوں گی، جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور لگاتار اس کے دانے گرنے لگیں ،وہ باتیں یہ ہیں : جب مالِ غنیمت کو گھر کی دولت سمجھا جانے لگے۔جب امانت دبالی جائے۔ زکوٰة کو تاوان اور بوجھ سمجھا جانے لگے۔علم دین دنیا کے لیے حاصل کیا جائے۔ انسان اپنی بیوی کی اطاعت کرے اور ماں کی نافرمانی کرے۔انسان اپنے دوست کو قریب کرے اور اپنے باپ کو دور کرے۔ مسجدوں میں شور وغل ہونے لگے۔قوم کی قیادت، فاسق وفاجر کرنے لگیں۔انسان کی عزت اِس لیے کی جائےتاکہ وہ شرارت نہ کرے۔گانے بجانے کے سامان کی کثرت ہوجائے۔شباب وشراب کی مستیاں لوٹی جانے لگیں ۔بعد میں پیدا ہونے والےامت کے پچھلے لوگوں پر لعنت کرنےلگیں۔(ترمذی شریف)
صحابئ رسول حضرت سیدنا انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ صدیقہ کائنات ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کیا کہ زلزلہ کیوں آتا ہے؟ ام المومنین نے فرمایا جب لوگ زنا کو حلال سمجھنے لگیں ، شراب پینے لگیں اور گانے بجانے کے مشغلہ کو اپنالیں تو پھر اللہ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور زمین کو حکم ہوتا ہے کہ زلزلہ برپا کردے، اگر اس علاقے کے لوگ توبہ و استغفار کرلیں اور اپنی بداعمالیوں سے باز آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے ورنہ ان کے لئے ہلاکت ہے۔
فقیہ امت حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ایک مرتبہ کوفہ میں زلزلہ آیا تو انہوں نے اعلان عام کیا کہ اے لوگو! یقینا تمہارا رب تم سے ناراض ہوگیا ہے اگر اس کی رضا مندی چاہتے ہو تو فوری اس کی طرف رجوع کرو اور اجتماعی توبہ کرو وگرنہ اسے یہ پرواہ ہرگز نہیں ہوگی کہ تم کس وادی میں ہلاک ہوتے ہو،عمر ثانی عادل حکمران حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک مرتبہ جب زلزلہ آیا تو اپنے تمام گورنروں کو ایک خصوصی پیغام بھیجا جس میں آپ نے فرمایا کہ سنو اور اچھی طرح جان لو کہ زلزلے کے جھٹکے سزاکے طور پر آتے ہیں لہذا تم لوگ صدقہ و خیرات کرتے رہو اور توبہ و استغفار میں لگے رہو اور حضرت آدم علیہ السلام کی یہ دعا مانگتے رہو۔
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ
وہ دونوں کہنے لگے کہ اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اور اگر آپ ہماری مغفرت نہ فرمائیں گے اور ہم پر رحم نہ کریں گے تو ضرور ہم تباہ کاروں میں سے ہوجائیں گے۔
(الاعراف، 7: 23)
اگر انصاف کے ساتھ موجودہ ماحول کا جائزہ لیا جائے، تو مذکورہ باتوں میں سے کون سی بات ہے،جو اب تک نہیں پائی گئی؟ساری پیشین گوئیاں حرف بہ حرف پوری ہوتی ہوئی نظر بھی آرہی ہیں،دھوکہ، بے ایمانی، کرپشن، سرکاری وعوامی چیزوں میں ناجائز تصرفات، مسلمانوں کی املاک کا نظام بد سے بدتر ، عصری تعلیم کا شور اتنا طاقت ور،کہ دینی درس گاہوں کے طلبہ مدرسے کی چار دیواری میں رہتے ہوئے دینی تعلیم سے بے اعتنائی برت رہےہیں اور عصری علوم کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، والدین کی نافرمانی کے واقعات اب پرانے ہوگئے ہیں، بیوی کی اندھی محبت نے کتنے بنے بنائے گھر اجاڑ دیئے، مساجد کا پرسکون اور قدسی ماحول کس قدر پراگندہ ہوچکا، عہدے،منصبوں اور قیادت وسیادت کے لیے اعلانیہ جنگیں اور تمام مرکزی مناصب نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں برسوں سے ہیں، گانا، میوزک، فلم اور اِس طرح کی چیزوں کا بازار اتنا گرم ہے کہ الامان والحفیظ، اِس حوالے سے اگر کچھ کسرباقی رہ گئی تھی، تو موبائل اور انٹر نیٹ کے منفی استعمال نے پوری کردی،ام الخبائث شراب کا شوق جہاں غیروں کو تھا اور ہے ، وہیں اپنے بھی اب پیچھے نہیں رہے، اور مرحوم علما، صلحا، اتقیا اورنیک لوگوں پر کیچڑ اچھالنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں بچی، اور یہ ساری باتیں آج سے نہیں بہت پہلے سے ہیں، اللہ کے نبی نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی اِس کی اطلاع دی تھی، جہاں یہ ارشاد ایک طرف اسلام کی حقانیت کی واضح دلیل ہے، وہیں دوسری طرف زلزلوں کی آمد کی وجوہات سمجھنے میں معین ومددگار بھی ثابت ہوتارہا ہے اور یہ وہی ماحول ہے ، جس کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنحا نے ارشاد فرمایا تھا: جب لوگ زنا کو حلال سمجھیں، شراب پینے لگیں اور گانے بجانے کا مشغلہ اپنا لیں تو اللہ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور زمین کو حکم ہوتا ہے کہ وہ زلزلہ برپا کردے۔
مذکورہ بالا دلائل و براہین سے یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہوگیا کہ زلزلے اور دیگر قدرتی آفات محض عذاب الہٰی ہی نہیں بلکہ اللہ کے نیک و پارسا بندوں پر آزمائش بھی ہیں۔ لہذا مصائب و آلام سے بچنے کے لئے ہم کو بحیثیت قوم سابقہ قوموں کے واقعات سے عبرت حاصل کرنی چاہئے اور ان قرآنی واقعات کا مطالعہ کرنا چاہئے جو ان نافرمان قوموں پر غضب الہٰی کے نزول کا سبب بنے اور جہاں بھی یہ قہر خداوندی بپا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اجتماعی توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ، آفت زدہ علاقوں میں بلاتفریق مذہب و ملت بحیثیت انسان ہمیں چاہئے کہ ان بے یارو مددگار سسکتے انسانوں پر مصیبت و آزمائش کے ان پرکٹھن لمحات میں اپنی رفاہی و فلاحی خدمات بڑھ چڑھ کر پیش کریں۔