ہفتہ, ستمبر 14, 2024
صفحہ اولتازہ ترینپاکستان میں مذہب کارڈ کا غلط استعمال پاکستان کی بدنامی کا باعث...

پاکستان میں مذہب کارڈ کا غلط استعمال پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہاہے،ڈاکٹر منوج چوہان

صدرسناتن دھرم انٹرنیشنل سوسائٹی پروفیسرڈاکٹر منوج چوہان نے کہا کہ خاتم النبیین رسول اکرمؐ نے انسانیت کی خدمت کی جس کی پوری دنیا معترف ہے۔اسلام ایک پرامن مذہب ہے جوسب کو مذہبی آزادی کی اجازت دیتاہے۔ذہنی دباؤ پورے پاکستانی معاشرے میں سرائیت کرچکاہے،دوسروں کی بے عزتی کرکے اپنے آپ کو برترسمجھاجاتاہے جو لمحہ فکریہ ہے۔پاکستان میں مذہب کارڈ کا غلط استعمال قومی اور بین الاقوامی سطح پرپاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہاہے،فسادکی شروعات ہمیشہ برائی سے ہوتی ہے،ازل سے خیر وشر کی جنگ جاری ہے اور تاابد یہ جنگ جاری رہے گی اور جب بھی کوئی یزی لبادہ اوڑھ کرمعاشرے میں شرانگیزی پھیلائے گا وہ ہمیشہ لعنتی ہی ثابت ہوگا اور جب کوئی حسینی کردار اپنائے گا تومعاشرہ اس کو قدرکی نگاہ سے دیکھے گا اوریاد رکھا جائے گا۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے جامعہ کراچی کے زیر اہتمام چائنیزٹیچرزمیموریل آڈیٹوریم جامعہ کراچی میں منعقدہ قومی کانفرنس بعنوان: ”بین المذاہب ہم آہنگی اور بقائے باہمی: بڑھتی ہوئی انتہاپسندی اور عدم برداشت کا حل“ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ڈاکٹر منوج نے اس اہم موضوع پر کانفرنس کے انعقاد پر شیخ الجامعہ ڈاکٹر خالد محمودعراقی،رئیس کلیہ فنون وسماجی علوم جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر شائستہ تبسم،کانفرنس کوآرڈینیٹر ڈاکٹر عزیزالرحمن سیفی اور ڈائریکٹر سیرت چیئر جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر عبیداحمدخان کاشکریہ اداکیا اور اس طرح کی کانفرنسز کو وقت کی اہم ضرورت قراردیا۔

اس موقع پر جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر خالد محمودعراقی نے کہا کہ ہمیں اپنے معاشروں میں عدم برداشت اورتشدد کے رجحانات کو ختم کرنے کے لئے سب سے پہلے اپنی سوچ کو امن کے اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ایک ہی خاندان میں مختلف سوچ،فکر اور اوصاف کے حامل افرادایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں،اسی طرح ہمیں ملک میں موجود دیگر مذاہب کو بھی برداشت اور ان کا احترام کرنا چاہیئے۔اسلام ہر انسان کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اپنی عبادات آزادی سے کریں،اسلام نے مذہب کے معاملے میں ہمیشہ آزادی دی ہے اور اس سلسلے میں کوئی سختی نہیں ہے۔ایسا معاشرہ جس میں بین المذاہب ہم آہنگی ہو اور تمام مذاہب کا احترام ہو، وہاں تجارتی اور معاشی مواقع پیدا ہوتے ہیں اورترقی کی منازل طے کی جاتی ہیں۔ہمیں ایک دوسرے کی رائے سننے اور اس کا احترام کرنے کی ضرورت ہے اسی صورت ہمارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔وقت کا ہمیشہ سے تقاضا رہاہے کہ دنیا میں بسنے والے تمام لوگ ایک دوسرے کے عقائد،خیالات،رہن سہن اورطرز فکر کو مثبت انداز میں دیکھیں اور امن وسلامتی کے اصولوں پر عمل پیرا رہتے ہوئے اس دنیا کو گہوارہ امن بنائے۔

نمائندہ پارسی کمیونٹی آن سی ایم سندھ نان مسلم ویلفیئر کمیٹی تشنہ پٹیل نے کہا کہ امن زندگی کا ایک طریقہ ہے جس میں ہم اپنے ثقافتی، مذہبی اور سیاسی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کا احترام اور محبت کرتے ہیں۔ انسانیت کی ترقی کے لیے امن بہت ضروری ہے، فرد کی طرف سے منفی ردعمل روزمرہ کی زندگی میں امن میں خلل ڈالنے کا سب سے بڑا عنصر ہے۔ہماری یہ اجتماعی ذمہ داری ہے کہ سب ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کریں اور امن و رواداری کے اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے ایک مضبوط اور متحد پاکستان کی بنیاد میں اپنا حصہ ڈالیں۔

سکھ کمیوٹنی سے تعلق رکھنے والے سردار امرسنگھ نے کہا کہ دنیا کے جتنے بھی مذاہب ہیں سب امن،محبت اور بھائی چارے کا درس دیتے ہیں۔تمام مذاہب کی مذہبی کتابیں لسانیت،انتہاپسندی،تشدد اور عصبیت کی نفی کرتی ہے۔عصرحاضر میں اس طرح کی کانفرنسز کا تواترسے انعقاد ناگزیرہے۔

ڈاکٹر محسن نقوی نے کہا کہ بین المذاہب ہم آہنگی کو سمجھنے اور اپنانے کی اشد ضرورت ہے اور اس سلسلے میں طلباوطالبات کلیدی کردار اداکرسکتے ہیں۔بین المذاہب ہم آہنگی کے ذریعے نفرت،تشد د،عدم مساوات اور عدم برداشت جیسے مسائل کو شکست دی جاسکتی ہے۔

رئیس کلیہ فنون وسماجی علوم جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا کہ مکالمے اور بات چیت کے ذریعے ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔تنگ نظری کسی بھی معاشرے میں فتنہ اور فساد کا سبب بنتی ہے۔تنگ نظری کے بجائے مکالمے کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔کوئی بھی مذہب تشدد کی اجازت نہیں دیتابلکہ تمام مذاہب ہم آہنگی اور امن کی بات کرتے ہیں۔

رکن اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی نے کہا کہ دشمنان وطن سوشل میڈیاکے ذریعے ایسامواد تیارکرتے ہیں جو پاکستان میں انتشارپھیلائے اور آگاہی اور معلومات سے عاری افرادان کے مذموم مقاصدکو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا زریعہ بن جاتے ہیں۔کسی بھی خبر کی تشہیر سے پہلے اس کی تصدیق ناگزیر ہے،ہمارے اساتذہ کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنے طلبہ کو سوشل میڈیا کے صحیح استعمال کی ترغیب دیں۔

کانفرنس کے کوآرڈینیٹر اور شعبہ عربی کے اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر عزیز الرحمن سیفی نے کہا کہ جب تک ہمارے معاشرے میں مکالمے کے کلچر کو فروغ نہیں دیاجائے گا،بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ نہیں دیاجاسکتا۔کانفرنس سے حافظ عمر نے بھی خطاب کیا اور پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کی ضرورت پر زوردیا۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں

مقبول ترین