تحریر : فارینہ حیدر
مجھے سروس سے بلیک لسٹ کس نے کیا” کے عنوان سے آرٹیکل لکھا. الحمد للہ میرا سب نے میرا بہت ساتھ دیا لوگوں نے اسے پڑھا اور میری مدد کی، اجتماعی شعور جگایا، ایک ویب سائٹ پر میرا آرٹیکل اسی دن پبلش بھی کر دیا گیا ۔ نامور شخصیات نے مدد کی یقین دہانی کرائی ۔ سب سے بڑھ کر جو انسان کو نفسیاتی اور معاشرتی طور پر تنہائی محسوس ہوتی ہے کہ ہم اکیلے ہیں کوئی ہمارے ساتھ نہیں اس احساس کو ختم کیا ۔ اللہ ان سب کو جزائے خیر دیں ۔ ان کو انکے کاموں میں ترقی دے ۔ ان کی حفاظت فرمائے، ان سب لوگوں کا ایک دوسرے کی مدد کرنے کے جذبے کو برقرار رکھے ۔ آمین
پچھلے آرٹیکل کو پڑھ کر مجھے سب نے ایک رائے دی کی کہ مقدمہ کریں. اب اس کیس کی لیگل حیثیت بتانی ضروری ہو گئی ہے ۔ دراصل ہوا کیا ہے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے ۔ جب کسی گھرانے کا سربراہ قتل ہو جائے یا اس کا کوئی فرد مارا جائے اور وہ گھرانا انصاف کے لیے عدالتوں میں چلا جائے پھر اس گھرانے کا معاشی اور جان کا تحفظ ریاست کی زمہ داری ہوتی ہے ۔ کیونکہ اب وہ انصاف کے لیے کھڑا ہے تو اسے ہر اس شخص سے لڑنا پڑے گا ۔ جو اس کے خلاف ہے بلکہ ان کے ساتھ بھی کھڑا ہونا پڑے گا جو اس کو انصاف دلانے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔ سمجھے جیسے کسی گاؤں میں جرگے میں کسی کا مقدمہ چلا جائے یہی حال عدالتوں کا ہوتا ہے ۔
سب سے پہلی بات میری بلیک لسٹنگ کا معاملہ ہونا ہی نہیں چاہیے تھا کیونکہ میرے والد کی موت کے بعد میری ماں انصاف کے لیے کھڑی ہوئی ۔ اس وقت کھڑی ہوئی جب لوگ میرے والد کا معاملہ سن کر اگلی بار اپنے دفتروں سے باہر نہیں نکلتے تھے ۔ لیکن وہ پھر بھی میدان میں رہیں ۔ اس کے لیے انھوں نے وکیل کیے ۔ آپ سب کو حیرت ہو گی کہ ہمارے وکیلوں کا پینل تھا جس میں 4 سے 5 وکیل تھے اور سب سے اوپر خواجہ نوید احمد تھے ۔ جو آج بھی ہیں ۔ خواجہ صاحب کو ہم نے شروع میں ہی فیس ادا کر دی کہ کام جلدی ہو گا لیکن یہ ہمارا کام کرنے کے بجائے غائب ہو جاتے تھے ۔
میرے والد کے قتل کا مقدمہ جس مشکل سے لڑا اور لوگ پکڑوائے وہ ایک الگ کہانی ہے ۔ ہمارا پیسہ اور جائیداد ہمارے چچاؤں نے دبائی ہوئی ہے ۔ جس کا مقدمہ الگ ہے ۔ اب ان مقدمات کو کرنے پر بھی مجھے الگ سے مقدمہ کرنا پڑا تو یقیناً ایسے وکیلوں پر اور ایسی بیورو کریسی پر لعنت ہے ۔ جو یتیم اور بیوہ سے پیسے بھی لے لیں ۔ ان کے بڑے بڑے معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر انھیں ہی درندوں کے آگے کر دیں ۔
پاکستان میں ایسا نہیں ہے کہ وٹنس پروٹیکشن کا قانون نہیں ہے یا کسی کے روزگار کو تحفظ دینے کا کوئی قانون نہیں ہے ۔ سب ہے انگریز قانون دے کر گیا ہے ۔ اس کے بعد بھی قانون سازی ہوری ہے لیکن قانون پر عملدرآمد نہیں ہے ۔ منصف سے زیادہ وکیل ظالم ہے ۔ جس نے شہادت دینی ہے کہ میرا مؤکل ایسا نہیں ہے ۔ وہی پیسہ اور کیس لے کر غائب ہوتا ہے ۔
میں اپنا مقدمہ محتسب اعلیٰ سندھ لے کر گئی ۔ اس کا بھی ہائی کورٹ سے آرڈر آیا تھا کہ مقدمہ کریں ۔ محتسب اعلیٰ نے جوائننگ کا آرڈر آیا ۔ پھر وہی سے بلیک لسٹنگ کی رپورٹ ملی، کیس کی پوری انکوائری ہوئی جو نیب نے کی ۔ جامعہ نے ان کے احکامات نہیں مانے پھر شعبہ ریاضی نے ہراساں کیا جو میں بتا چکی ہوں ۔ اس وقت عارف کمال چھپ گیا اور انور زیدی اور دیگر کو چھوڑ دیا ۔ پھر سٹی کورٹ میں مقدمہ چلا ۔ انھوں نے بھی اس کے خلاف فیصلہ دیا ۔ کچھ نہیں ہوا ۔ پھر ہائی کورٹ میں ان پرسن میں نے مقدمہ کیا ۔ لیکن اتنے ظالم ہے مجھے بلیک لسٹنگ سے پھر بھی نہیں نکالا ۔
اس دوران ایسا نہیں ہے کہ کوئی کام عدالتوں نے نہ کیے ہوں آج تک سندھ پبلک سروس کمیشن پر پابندی ہے لیکن پھر بھی بھرتیاں ہوتی ہیں وزارتوں کی بنیاد پر ہوتی ہے ۔ سپریم کورٹ نے کنٹریکٹ ملازمین کو بحال کرنے کے لیے 2 سال پہلے آرڈر دے دیئے تھے اور جس پیریڈ میں ان کا کنٹریکٹ نہیں کیا ۔ اسکے بھی ڈیمیج دینے کا آرڈر دیا لیکن جب میرا معاملہ ہوا میرے لیے کوئی آرڈر ہی نہیں کام کر رہا تو کیا کروں ۔ جب کچھ نہیں ہوا تو پھر میں نے اپنی ماں سے کہا مجھ سے تو معاملہ حل ہی نہیں ہو رہا ہے ۔
پھر انھوں نے خواجہ نوید احمد کو میرے پکے پکائے کیس پر بھی پیسے دیے کہ اس کا کام کروا دے ۔ 1.5 سال ہو گیا صرف ارجنٹ کی درخواست لگاتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے جبکہ پرانے آرڈرز کا ڈھیر ہے میں نے کہا بھی کہ میرا کہی اور کام کروا دے میں چلی جاؤں گی ۔جامعہ کے رجسٹرار سے خود بات کر کے آئی کہ کہی اور کروا دیں میں چلی جاؤں گی ۔ جامعہ کے دروازے کو بھی نہیں دیکھوں گی لیکن بھئی وہاں پڑ گئے مزے ابھی ایک دکھائی دے رہی ہے پھر اس کے بعد کئی مل جائے گی۔
اس کو کہتے ہیں ہے Harassment at work place یہ معاملہ اس لیے بھی ختم نہیں ہو رہا کیوں کہ عارف کمال، انور زیدی ابھی بھی جامعہ کراچی کے اندر ان کے گھروں میں رہ رہے ہیں جبکہ ریٹائرمنٹ کے بعد صرف ایک سال تک رہنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس کے بعد گھر خالی کرنا ہوتا ہے۔ عارف کمال کی ریٹائرمنٹ کو 7 سال ہو چکے ہیں ۔ انور زیدی کی ریٹائرمنٹ کو 6 سال ہو چکے لیکن یہ لوگ آج تک جامعہ کراچی کے اندر مقیم ہیں ۔ ہراسمنٹ صرف دست درازی نہیں ہوتی بلکہ آپ کے کام کو روکنا ۔ آپ کی تنخواہیں روکنا ، بدنام کرنا عدالتی حکم یا کسی انکوائری پر دوبارہ جوائنگ دینے کے حکم کو نہ ماننا یہ سب بلیک میلنگ اور ہراساگی میں آتا ہے اور جامعہ کراچی، شعبہ ریاضی کے مرد اس گھناؤنے جرم میں ملوث ہیں ۔
اب اتنے سال گزرنے کے بعد اب اگر مجھ سے کوئی کہے کہ آپ ان کو چھوڑ دیں اور اب کہیں اور چلی جائیں تو اب وقت گزر گیا جب میں کہہ رہی تھی مجھے کلئیر کر دوا ور دوسری جگہ کام کرنے دو تب تو میری کسی نے نہیں سنی ۔
اب تو میری برداشت ختم ہو گئی ہے اور پورے شہر کی نوکریوں کی زمہ داری میری نہیں ہے ۔ ہر شخص اپنا حصہ لینا جانتا ہے اور ہر کسی کا کیس دوسرے سے مختلف ہوتا ہے ۔ جیسے سب کا نصیب مختلف ہوتا ہے ۔ اس لیے مجھے کلرکوں ،مالی چپڑاسی، اور جعلی بھرتیوں میں ملانے کی ضرورت نہیں ہے عدالتوں کے اتنے آرڈر ہے کہ اگر قانون پر عملدرآمد ہوتا تو ان کی نسلیں بھی جیل میں ہوتی ۔ وَمَا عَلَيْنَآ اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِيْنُ .
دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔