کراچی : سندھ کے وزیر تعلیم و ثقافت سید سردار علی شاہ نے منگل کے روز صوبائی اسمبلی فلور پر اپنے بیان میں کہا کہ صوبے میں حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران تباہ ہونے والی سرکاری اسکولوں کی عمارتیں 30 سے 50 سال پرانی تھیں لیکن برطانوی راج میں تعمیر ہونے والی اسکولوں کی عمارتیں محفوظ رہیں ۔
وزیر تعلیم نے صوبے میں خواندگی اور تعلیم کے معیار کے بارے میں ترمیمی تحریک پر ایوان سے خطاب کرتے ہوئے مذید کہا کہ سیلاب سے تباہ شدہ سکولوں کی عمارتیں پاکستان کی آزادی کے بعد تعمیر کی گئیں ۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ سندھ میں دیر پا تعلیمی انفرا سٹرکچر کی تعمیر کے لیے ایک حکمت عملی کی ضرورت ہے جو قدرتی آفات سے بچ سکے ۔انہوں نے مذید بتایا کہ سیلاب نے صوبے میں 20,000 اسکولوں کی سہولیات کو تباہ کر دیا ہے اور ان میں سے 7,000 کی فوری طور پر مرمت شروع کر دی گئی ہے تاکہ تعلیمی سرگرمیاں دوبارہ شروع کی جا سکیں ۔
مذید پڑھیں : لیاری نرسنگ کالج کی سابق پرنسپل شبانہ بلوچ کی احتجاج کے نام پر ڈرامہ بازی پکڑی گئی ؟
وزیر تعلیم نے کہا کہ ورلڈ بینک کو مطلع کیا گیا ہے کہ 200000 روپے سیلاب سے تباہ شدہ تعلیمی سہولیات کی تعمیر نو کے لیے 139 ارب روپے درکار ہوں گے ۔
ان کا خیال تھا کہ نئے پرائمری سکولوں کی تعمیر کے حکومتی منصوبے کو ختم کر دینا چاہیے اور اس کے بجائے پانچویں جماعت کے بعد بچوں کے سکول چھوڑنے کی شرح کی روشنی میں ایلیمنٹری سطح کے سکول (جو آٹھویں جماعت تک تعلیم دیتے ہیں) قائم کیے جائیں ۔