منگل, اکتوبر 22, 2024
صفحہ اولتازہ ترینباکیو یونیورسٹی کے پروفیسر محمد اسٹیفن لیکا کی حیران کن داستان

باکیو یونیورسٹی کے پروفیسر محمد اسٹیفن لیکا کی حیران کن داستان

رپورٹ : ضیا چترالی

اسٹیفن ہاکنگ کو تو سبھی جانتے ہیں۔ لیکن کیا آپ نے کبھی اسٹیفن لیکا کے بارے میں بھی سنا ہے؟ انہیں اگر نہیں جانتے تو سمجھیں کچھ بھی نہیں جانتے۔ باکیو یونیورسٹی کے مایہ ناز پروفیسر ہیں۔ 150 ممالک گھوم کر اسلام کی روشنی پھیلانے والے نومسلم ہیں ۔ 40 ممالک کا 29000 کلومیٹر پیدل طے کیا ، یورپی ملک رومانیہ سے تعلق ہے ۔ کٹر مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے ۔ اسلام قبول کیا تو والد نے گھر سے نکال دیا، ماں نے چہرے پر تھوک کر بات بند کر دی ۔ مگر اسٹیفن نے ہمت نہیں ہاری۔ مسلسل ان کے لیے دعائیں بھی کرتے رہے اور دعوت بھی دیتے رہے۔ بالآخر وہ بھی ایمان لے آئے۔ پھر بھائیوں کے پیچھے پڑ گئے ۔ یہاں تک کہ وہ بھی مسلمان ہو گئے۔ اہل خانہ کو دائرہ اسلام میں لانے کے بعد اہل علاقہ کی فکر کی اور انہیں دعوت دیتے رہے۔ پھر انہوں نے پہلے اپنے ملک اور پھر پوری دنیا دعوت کا پیغام عام کرنے کیلئے پیدل سفر شروع کیا۔

اب تک وہ 40 ممالک کا سفر اور 29 ہزار کلومیٹر پیدل طے کر چکے ہیں ۔ اسٹیفن کا ایک ہی مشغلہ ہے یعنی دعوت الی الاسلام۔ تاہم اب بڑھاپے کی وجہ سے مزید پیدل چلنے کے بجائے دعوتی سفر مقصد کیلئے انہوں نے ایک مخصوص ہیوی گاڑی تیار کی ہے۔ جو صحرا و بیانوں اور پہاڑی راستوں پہ بھی چڑھ سکتی ہے ۔ اس گاڑی کو دنیا کی مشہور زبانوں میں لکھی دعوتی تحریروں سے مزین کر کے اب یہ دنیا کے باقی ممالک تک بھی پہنچ کر دعوت حق کا پیغام پہنچانے کیلئے کمربستہ ہیں ۔ 27 برس سے لیکا صاحب کا یہی مشغلہ ہے ۔

اب تک وہ 150 ممالک تک دین کا پیغام پہنچا چکے ہیں ۔ دنیا کے باقی ماندہ ممالک جانے کیلئے بھی پرعزم۔ فرماتے ہیں کہ اللہ کے فضل سے میرے ہاتھ سے اتنے لوگ مسلمان ہو چکے ہیں کہ ان کا شمار بھی نہیں کر سکتا۔ پوری دنیا کے اس سفر میں، میں عرب خطے سمیت اسلامی ممالک میں بھی گیا تاکہ مسلمانوں کو دعوت کی عظیم ذمہ داری کا احساس دلا سکوں۔

ایک ٹرپ میں، میں سعودية، عمان، امارات، قطر، اور يمن کا دورہ کر چکا ہوں ۔ باقی مسلم ممالک کا دورہ بھی عنقریب ہو گا۔ محمد لیکا کا اسلوب دعوت نہایت نرالہ اور بہت ہی متاثر کن ہے ۔ اس راستے میں وہ اپنا سب کچھ قربان کر چکے ہیں۔ گھر بار سب کچھ بکنے کے بعد اب انہوں نے ایک عجیب طریقہ اختیار کیا ہے ۔ اپنی یونیورسٹی سے معاہدہ کیا ہے کہ میں 3 ماہ تدریس کروں گا۔ 3 ماہ کی تنخواہ لے کر اللہ کے راستے میں نکلوں گا ۔ پھر 3 ماہ بعد واپس آ کر تدریس کروں گا۔ اسی روٹین پہ وہ چلتے ہیں بیوی کو ساتھ لیکر ۔

یہ بھی پڑھیں : وفاقی جامعہ اردو کے قائم مقام وائس چانسلر بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے لگے

فرماتے ہیں کہ کیتھولک لوگوں کو دعوتِ اسلام دینے کیلئے کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں، بس سورۃ مریم ہی کافی ہے ۔ خدا کی قسم ! اکثر مسیحی عوام کو معلوم ہی نہیں ہے کہ قرآن کریم میں مریم کے نام کی سورت بھی موجود ہے ، جس میں ان کا تذکرہ نہایت ہی عقیدت کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ یورپی دیہات میں، میں جب ان کے سامنے سورۃ مریم مع ترجمہ پڑھتا ہوں تو وہ رونے لگ جاتے ہیں۔

عظیم پروفیسر کا کہنا ہے کہ 40 ممالک کے پیدل سفر میں 54 جوڑے جوتے گھس کر ختم ہو گئے اور 29 ہزار کلومیٹر کا سفر طے ہوا۔ اب میں نے گاڑی خریدی ہے۔ میرے رب نے مجھے ہدایت سے نوازا اور اسلام جیسی عظیم دولت عطا کی۔ اب مجھ پر لازم ہے کہ میں یہ نعمت محروموں تک بھی پہنچائوں۔ جب رومانیہ میں ایک ہزار افراد کو میں نے کلمہ پڑھایا تو میں نے کہا کہ اب محنت کا کچھ پھل ہاتھ لگا ہے۔ الحمد للہ اب تو یہ تعداد صرف میرے صوبے میں 80 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ جبکہ پورے ملک میں نصف ملین تک۔ اسٹیفن کے قبول اسلام کی داستان بڑی عجیب ہے۔

فرماتے ہیں کہ بیوی کے ساتھ ترکی کی سیاحت کیلئے گیا تھا۔ گھوم گھامتے بہت دور دیہات میں نکل گئے۔ رات کا وقت ہو گیا۔ ایک بڑے میاں ملے ۔ انہوں نے سلام کیا ۔ بلکہ یہاں ہر گزرنے والا ہمیں سلام کرتا ۔ مگر ہمیں اس لفظ کا مطلب ہی معلوم نہیں تھا۔ بہرحال اس بزرگ کے چہرے سے نور ٹپک رہا تھا۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ ہمیں رات گزارنے کیلئے ہوٹل چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں دور تک کوئی ہوٹل نہیں ہے۔ آپ مہمان ہیں۔ میرے ساتھ رات گزار کر صبح چلے جائیں ۔ یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہو گی۔ انہوں نے بڑا اصرار کیا، دل تو نہیں مان رہا تھا کہ ایک اجنبی پر کیسے بھروسہ کریں، لیکن ان کی نورانیت سے متاثر ہو کر ہم ان کے یہاں مہمان بن گئے۔

وہ بہت زیادہ خوش ہوئے۔ جب ہم ان کے گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک پرانا اور کچا گھر ہے ۔ غربت درودیوار سے ٹپک رہی تھی۔ لیکن اس میں طمانیت اور راحت کا احساس ہوا۔ اس شخص کی بیوی اور 5 بچوں نے بھی ہمارا استقبال کیا۔ وہ بھی خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ ترک شخص نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر ہماری زبردست ضیافت کی ۔ کھانے کے بعد ہم سے کہا کہ آپ تھکے ہوئے ہیں۔ اب آرام کریں۔ ہم دونوں سو گئے۔ صبح سویرے جب آنکھ کھلی تو عجیب منظر تھا۔ گھر اہل خانہ سے بالکل خالی ۔

خدایا یہ کہاں چلے گئے۔ میں گھبرا کر باہر نکلا تو دیکھا کہ اہل خانہ سب باہر درخت کے نیچے سو رہے ہیں۔ مجھے بڑا عجیب لگا۔ میں نے بزرگ سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا؟ تو ان کے جواب سے بے اختیار میرے آنسو جاری ہو گئے۔ فرمایا کہ آپ میرے مہمان ہیں اور تھکے ہوئے۔ پھر یہاں آپ اجنبی ہیں۔ دور سے سفر کر کے آئے ہیں۔ میرے گھر میں سونے کا ایک ہی کمرہ تھا ۔ جسے ہم نے آپ کیلئے خالی کر دیا تاکہ سکون سے سو سکیں۔ دوسرا کمرہ نہیں تھا۔ اس لئے ہم باہر درخت کے نیچے سو گئے۔

یہ بھی پڑھیں : شیخ سید عبد الرحمن الکتانی 103 برس کی عمر میں انتقال کر گئے

کویتی چینل کو انٹرویو کے دوران اسٹیفن یہ کہتے ہوئے رو پڑے کہ یہ ہے ہمارا اسلام ، یہ ہے ہمارے دین کی تربیت۔ بس یہیں سے میں گھائل ہو گیا۔ بوڑھے ترک کے اس طرز عمل نے میرے اندر کی دنیا بالکل بدل کر رکھ دی ۔ وہیں سے فیصلہ کیا کہ اب مجھے اس مذہب میں داخل ہونا ہے۔ اس کے بعد میں ڈائریکٹ مصر گیا۔ جامعہ ازہر شریف میں جا کر اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا اور اپنا نام تبدیل کر کے محمد لیکا رکھ لیا ۔

ایسا نہیں کہ دعوتی اسفار میں ہر جگہ لیکا صاحب کو پھول پیش کئے جاتے ہیں۔ یہ سفر مشکلات کے کانٹوں سے پر ہے۔ ان پر تشدد بھی کیا جاتا ہے۔ کئی بار وہ لہولہان بھی ہوئے۔ جیسا کہ زیر نظر تصویر میں دیکھ سکتے ہیں ۔ مگر وہ راہ حق میں ہر مشکل خندہ پیشانی سے سہے کے عادی ہو چکے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ دعوتی سفر پر میں برازیل پہنچا اور وہاں ایمازون کے جنگلات میں اللہ کا پیغام پہنچایا ۔ اس دوران سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کہیں شدید سردی ہوتی ہے تو کہیں سخت ترین گرمی ۔ لیکن اللہ کا یہ بندہ نہ سردی دیکھتا ہے اور نہ ہی گرمی ۔

کہتے ہیں کہ کئی ممالک میں تفتیش کے بہانے پولیس والوں نے ہمیں سامان سفر سے محروم کر دیا۔ محمد لیکا کے دو بچے ہیں ۔ عمر اور آدم ۔ وہ بھی باپ کے نقش قدم پر۔ جبکہ اہلیہ تو اب ہر سفر میں ساتھ ہی ہوتی ہیں۔ وہ بھی اسی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ اب میں رومانیہ میں ایک بڑا مدرسہ کھولنا چاہتا ہوں ، جس میں ہر مذہب کے طلبہ کو داخلہ دوں گا ۔ دوسرا میرا ارادہ جاپان میں کام کرنے کا ہے ، جہاں بہت مواقع ہیں ۔ دنیا گھوما ہوں ، لیکن مسلم ممالک میں مجھے سب سے زیادہ جو چیز بری لگتی ہے، وہ یہ کہ ہر شخص کے چہرے پر بارہ بج رہے ہوتے ہیں، حالانکہ ہمارے نبیؐ کے چہرہ انور پر ہمیشہ مسکراہٹ سجی ہوتی ۔ مجھے مسلمانوں کے اخلاق سے بہت تکلیف ہوتی ہے ۔

کہتے ہیں کہ رومانیہ میں سرکاری طور پر 18 مذاہب ہیں ۔ جن میں اسلام کو بھی ابھی شامل کر دیا گیا ہے۔ جس سے ہمیں بہت سی آزادیاں ملی ہیں۔ رومانیہ کے مفتی اعظم کو حکومت نے وفاقی وزیر کا درجہ دیا ہے۔ جبکہ دارالافتاء کی تنخواہیں بھی حکومت دیتی ہے۔ اس کے ساتھ مساجد بنانے میں بھی آسانی ہو گئی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں ہفتہ وار ایک لازمی پیریڈ اسلام سے متعلق بھی رکھا گیا ہے ۔ رومانیہ میں اسلام کا مستقبل بہت روشن ہے۔ مسلمان سب باعمل ہیں۔ اب مساجد کی تعداد 80 تک پہنچ چکی ہے۔ اب میں اسلام پر ایک کتاب کے ساتھ ایک ڈاکومینٹری فلم بھی بنا رہا ہوں۔ جس میں اسلام کی حقانیت کے ساتھ اپنے دعوتی اسفار پر روشنی ڈالوں گا۔

اللہ کریم اس عظیم شخصیت کی قدم قدم پر حفاظت فرمائے۔ اس کی غیبی مدد و نصرت فرمائے اور اس کی مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت سے نواز کر باقی ممالک کے سفر کو بھی آسان بنائے۔

News Desk
News Deskhttps://educationnews.tv/
ایجوکیشن نیوز تعلیمی خبروں ، تعلیمی اداروں کی اپ ڈیٹس اور تحقیقاتی رپورٹس کی پہلی ویب سائٹ ہے ۔
متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں

مقبول ترین