جمعہ, اکتوبر 18, 2024

مسئلہ تکفیر

تحریر: محمد اسلم رضا الازہری

 

کسی بھی مسلمان پر کفر کا حکم لگانا ایک بہت ہی خطرناک عمل ہے اس سے خطرناک ترین اثرات مرتب ہوتے ہیں ان میں سے ایک دونوں میاں بیوی میں تفریق اور مسلمان اولاد کا کافر باپ کے تحت نہ رہنا اس پر مسلمانوں والے احکام کا اجراء نہ ہونا نہ ہی اسے غسل دیا جانااور نہ ہی نماز جنازہ پڑھی جانا اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جانا اور نہ ہی اس کا وراثت میں سے حصہ لینا اور نہ ہی اس کی وراثت سے کسی کا حصہ لینا۔

 

کفر سے ڈرانا 

یہ خطرناک اور بدترین اثرات جو کسی کی تکفیر سے مترتب ہوتے ہیں اسی لیے اللہ تعالی نے ہمیں اس سے نہ صرف ڈرایا ہے بلکہ کسی پر کفر کا فتوی لگانے میں جلدی کرنے سے اور اس پر رضا مندی سے نہ صرف منع فرمایا بلکہ اس میں مکمل تحقیق کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ اس میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہ رہے کسی کو معاف کرنے میں انسان سے غلطی کسی کو سزا دینے میں غلطی سے بہتر ہے اور یہ بھی ہم سب پر بہت ضروری ہے کہ کسی پر کفر کا فتوی لگانا کسی فرد کا کام نہیں بلکہ یہ مفتیان کرام اور ان اداروں کا کام ہے جو لوگوں کے احوال پر حکم لگاتے ہیں .

 

قرآن کریم نے جلیل القدر صحابی اسامہ بن زید کی اس لیے سرزنش کی کہ انہوں نے ایک شخص کو کافر سمجھتے ہوئے قتل کردیا تھا اور اس اسامہ بن زید کو سلام کیا کہ کہیں وہ اسے قتل نہ کردیں قرآن کریم نے کسی کو کافر قرار دینے اور اس سے دشمن والا کرنے جیسے پہلے خوب جانچ پڑتال کرنے اور تحقیق کرنے کا حکم دیا ہے۔

جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا (يأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِذَا ضَرَبْتُمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَتَبَيَّنُواْ وَلَا تَقُولُواْ لِمَنْ أَلْقَىٰٓ إِلَيْكُمُ ٱلسَّلَٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا فَعِندَ ٱللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ ۚ كَذَٰلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ ٱللَّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوٓاْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا( سورۃ النساء 94)

ترجمہ : اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) سفر پر نکلو تو تحقیق کر لیا کرو اور اس کو جو تمہیں سلام کرے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے، تم (ایک مسلمان کو کافر کہہ کر مارنے کے بعد مالِ غنیمت کی صورت میں) دنیوی زندگی کا سامان تلاش کرتے ہو تو (یقین کرو) اللہ کے پاس بہت اَموالِ غنیمت ہیں۔ اس سے پیشتر تم (بھی) توایسے ہی تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا (اور تم مسلمان ہوگئے) پس (دوسروں کے بارے میں بھی) تحقیق کر لیا کرو۔ بیشک اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔

 

اسی جانچ پڑتال کی اہمیت کو دوبارہ بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید کی معذرت کو قبول نہ فرماتے ہوئے فرمایا (کیا آپ نے ان کا دل چیر کردیکھا تھا )اور یہ اس حدیث مبارکہ میں آیا ہے جس کو اسامہ بن زید نے فرمایا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ میں بھیجا ہم صبح جھینہ کے مقام حُرقات میں پہنچے تو میں نے ایک شخص کو پایا جس نے لا الہ الا اللہ کہا میرے دل میں شک گزرا تو میں نے اسے قتل کردیا میں نے یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” کیا اس نے لا الہ الا للہ کہا اور آپ نے اسے قتل کردیا میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم اس نے اسلحہ کے خوف سے کہا آپ نے فرمایا کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ اس نے دل سے کہا یا نہیں کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار یہی فرمایا یہاں تک کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئے کہ کاش میں اس حادثہ کے مجھ سے رونما ہونے سے پہلے اسلام نہ لاتا اور میں اس حادثہ کے بعد ایمان لاتا ۔

 

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بڑی شدت سے تکفیر مسلم سے ڈرایا گیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‏ (‏إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِأَخِيهِ يَا كَافِرُ فَقَدْ ‏ ‏بَاءَ ‏ ‏بِهِ أَحَدُهُمَا – )ترجمہ : جب کوئی شخص اپنے کسی بھائی کو کہتا ہے کہ اے کافر ! تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہو گیا ، یعنی اگر جس کو کافر کہا جا رہا ہے وہ اس وصف سے متصف ہوا تو وہ کافر ہوا ورنہ کہنے والا کافر ہو گیا ۔

 

اور دوسری روایت میں ہے أَيُّما امْرِئٍ قالَ لأَخِيهِ: يا كافِرُ، فقَدْ باءَ بها أحَدُهُما، إنْ كانَ كما قالَ، وإلَّا رَجَعَتْ عليه ترجمہ : جس شخص نے بھی اپنے کسی بھائی کو کہا کہ اے کافر ! تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہو گیا ۔

 

حضرت ابوذر غفاری سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( وَمَنْ دَعَا رَجُلًا بِالْكُفْرِ، أَوْ قَالَ: عَدُوُّ اللهِ وَلَيْسَ كَذَلِكَ إِلَّا حَارَ عَلَيْهِ -أي عاد عليه) جو شخص کسی کو کافر کہہ کر بلائے یا اللہ کا دشمن کہہ کر پھر وہ جس کو اس نام سے پکارا ہے، ایسا نہ ہو (یعنی کافر نہ ہو) تو وہ کفر پکارنے والے پر پلٹ آئے گا.

 

یہ تمام احادیث مبارکہ اور ان جیسی احادیث سخت سرزنش کررہی ہیں اور سب سے بڑی نصیحت ہیں ان لوگوں کے لیے جو کسی بھی مسلمان کو اسلام سے خارج کرنے میں عجلت سے کام لیتے ہیں کیونکہ یہ کلمہ جیسے ہی کسی منہ سے نکلے گا تو وہ ضرور اپنے پیچھے دنیا و آخرت کی مار لے کر نکلے گا۔

 

علماء اسلام کی کسی کی تکفیر میں احتیاط :

کسی بھی مسلمان دین اسلام سے نکالنےاور اسے کفر میں داخل کرنے کے لیے جو بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہے اسے اس کے لیے واضح اور سورج کی طرح روشن دلیل لانا ضروری ہے اسی لیے علماء اسلام نے اس میں بے انتہا احتیاط کی ہے َََ۔

 

اور یہ قول تمام مسلمانوں میں مشہور ہے اور دین اسلام کے قواعد میں شامل ہے کہ اگر کسی بھی بندے سے ایسا قول صادر ہو جس میں سو وجوہات کفر کی ہوں اور ایک وجہ ایمان کی ہو تو اسے مومن گردانا جائے گا نہ کہ کافر ۔

 

حجۃ الاسلام امام غزالی فرماتے ہیں ضروری ہے کہ اس کی طرف رجوع کیا جائے اور کسی کی تکفیر سے احتراز کیا جائے اگر اس کی طرف صرف ایک کی دلیل کیوں نہ ہو کسی ایسے شخص کا جو قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے والا اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہنے والے کا خون حلال قرارد ینا غلط ہے اور اور کسی ہزار کافر کو غلطی سے زندہ رہنے دینے کی غلطی کسی مسلمان کو غلطی سے قتل کرنے سے کم گناہ ہے ۔

 

امام ذھبی امام ابوالحسن الاشعری رحمھماللہ سے ذکر کرتے ہیں کہ جب ان کے انتقال کا وقت قریب آیا اپنے ساتھ موجود لوگوں کو گواہ بناتے ہوئے کہا کہ مجھ پر گواہی دینا کہ میں نے اپنی زندگی میں کابھی کسی اہل قبلہ کو کافر نہیں کہا کیونکہ تمام ایک ہی اللہ کی عبادت کی طرف بلاتے ہیں مگر یہ سب عبارات کا اختلاف ہے امام ذھبی نے فرمایا کہ میں بھی اسی راہ پر ہو ں اور اسی طرح ہم کسی کی تکفیر میں جلدی نہیں کرتے ۔

 

اگرچہ بعض فرقے اپنے مخالفین کی تکفیر کرتے ہیں مگر ہم انہیں کافر نہیں کہتے اگر ہم نے بھی ان کی تکفیر کی تو ہم بھی گمراہی میں ان کے ساتھ شامل ہو جائیں گے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں سمجھائیں اور ان کے سامنے دلائل سے حق کو واضح کریں اور انکے لیے اللہ تعالی سے مغفرت اور اسلام پر استقامت کی دعا کریں اور اگر وہ بغاوت پر اتر آئیں اور لوگوں کی تکفیر کرکے انہیں قتل کرنا شروع کردیں تو یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے ساتھ جنگ کرے اور ان کے دانٹ کھٹے کرے اور معاشرے کو اس ناسور سے محفوظ رکھے ۔

 

حضرت امام علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کی تکفیر سے منع فرمایا ہے حالانکہ انہوں نے حضرت علی کی تکفیر کی تھی حضرت علی نے ان کے لیے فرمایا (إخواننا بَغَوا علينا ) پھر ان سے جنگ کی اور ان کا قلع قمع کیا ۔

 

کیا گناہ کبیرہ پر مسلمان کی تکفیر جائز ہے ؟

اگر کوئی مسلمان گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوجائے جیسے شراب نوشی ،یا قتل کرنا ،یا ان جیسا کوئی بھی گناہ تو اس کی تکفیر جائز نہیں ہے اس کی دلیل یہ ہے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں گناہوں کے مرتکبین کا ایمان ثابت فرمایا ہے اور دوایک دوسرے کو قتل کرنے والے گروہوں کو مومن کہا اگر وہ وہ دونوں قتل کرنے کے جرم میں شامل تھے۔

جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم می ارشاد فرمایا (وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (سورة الحجرات 9-10)

ترجمہ : اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑائی کریں تو اُن کے درمیان صلح کرا دیا کرو، پھر اگر ان میں سے ایک (گروہ) دوسرے پر زیادتی اور سرکشی کرے تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کا مرتکب ہو رہا ہے یہاں تک کہ وہ (قیام امن کے) حکم اِلٰہی کی طرف لوٹ آئے، پھر اگر وہ رجوع کر لے تو دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو، بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو بہت پسند فرماتا ہے 9-بات یہی ہے کہ (سب) اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث ابوبکرہ میں ارشاد فرمایا (إذا التقى المسلمان بسيفيهما، فالقاتل والمقتول في النار. فقيل: يا رسول الله هذا القاتل، فما بال المقتول؟! قال: إنه كان حريصاً على قتل صاحبه.

(بخاري و مسلم) ترجمہ : جب دو مسلمان ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لیے ملیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں میں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم یہ تو قاتل ہوا تو مقتول کا کیا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیونکہ وہ اپنے ساتھ والے کو قتل کرنے کے لیے حریص تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ( مسلمان ) کہا ہے اور ان کے لیے دوزخ کا فرمایا ہے اس کے ساتھ کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے کے درپئے تھے۔

 

جب ایک صحابی جلیل حاطب بن بلتعہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز اور آپ کی فوج کی نقل و حرکت سے قریش کو آگاہ کرنے کی غلطی کے مرتکب ہوئے تو ان سے قرآن سورہ ممتحنہ کی شروع کی آیات میں ایمان کے موضوع سے مخاطب ہوا۔

(یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّیۡ وَ عَدُوَّکُمۡ اَوۡلِیَآءَ تُلۡقُوۡنَ اِلَیۡہِمۡ بِالۡمَوَدَّۃِ وَ قَدۡ کَفَرُوۡا بِمَا جَآءَکُمۡ مِّنَ الۡحَقِّ (سورۃ الممتحنۃ 1)

ترجمہ اے ایمان والو! تم میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم (اپنے) دوستی کے باعث اُن تک خبریں پہنچاتے ہو حالانکہ وہ اس حق کے ہی مُنکر ہیں جو تمہارے پاس آیا ہے۔

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور زبیر کو اور مقداد کو بھیجا ہم اپنے گھوڑوں کو دوڑاتے ہوئے لے گئے تو ہمیں ایک ملی ہم نے اسے کہا کہ جو پیغام تم لے کر جارہی ہو وہ نکال کر ہمیں دو اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی پیغام نہیں ہے ہم نے کہا کہ تم وہ خط نکالو نہیں تو اپنے کپڑوں کو نیچے پھینک دو تو اس نے اپنے بالوں کے جھوڑے سے وہ نکال کر دیا ہم وہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو اس میں حاطب بن ابو بلتعہ کی طرف مشرکین مکہ کے لیے خط تھا جس میں جس میں انہوں نے اہل مکہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض کاموں کی خبر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا آئے حاطب یہ کیا ہے ؟

 

انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم میرے بارے فیصلہ فرمانے میں جلدی نہ کریں میں قریش کے ہاتھوں مجبور تھا حضرت سفیان فرماتے ہیں وہ قریش میں سے نہیں تھے بلکہ قریش کے حلیف تھے اور جو مہاجرین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ان کی قریش کے ساتھ رشتہ داری ہے اس قرابت داری سے وہ اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتے ہیں میں نے بھی یہی سوچا کہ اگرچہ میری قریش کے ساتھ رشتہ داری نہیں ہے مگر میں ان کی معاونت کر کے اپنے گھر والوں کو ان کے ہاتھوں سے محفوظ کر لوں گا میں نے یہ کفر یا اسلام سے مڑنے کے لیے نہیں کیا اور نہ ہی میں اسلام لانے کے بعد میں کفر کے لیے راضی ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے سچ کہا ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یارسول اللہ مجھے حکم فرمائیں میں اس منافق کی گردن اڑادوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

( إنه شهد بدرا ، وما یدریک لعل اللہ اطلع علی اہل بدر فقال : اعملوا ماشئتم ِ فقد غفرت لکم ؛

وہ غزوہ بدر میں شامل تھے تمہارا کیا خیال ہے اللہ تعالی تمام اہل بدر پر مطلع تھے اور فرمایا جو تمہارا دل چاہے کرو میں نے تمہیں معاف کردیا ہے۔

اللہ تعالی نے قرآن کی یہ آیت نازل فرمائی

(یاایھا الذین أءمنوا لا تتخذوا عدوي و عدوكم أولياء ) سورة الممتحنة :1)

 

کون کسی پر حکم کفر لگا سکتا ہے ؟

ہم اس کی طرف پہلے بھی اشارہ کر چکے ہیں اور بیان کر چکے ہیں کہ قرآن کریم میں امور دین میں اختلاف میں اور اس میں تنازع کی صورت میں یہ امر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کے جایا جائے گا یعنی اسے قرآن اور حدیث سے سمجھا جائے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا : (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا

(سورة اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے ۔

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ جو قرآن و حدیث کو صحیح سمجھتے ہیں وہ علماء ہیں اور وہ جو اس کا فیصلہ کرنے والے ہیں اور حکم بیان کرنے والے ہیں وہ اسلامی شریعت کا علم رکھنے والے قاضی ہیں یہ کسی عام مسلمان کسی جماعت کسی فرقے کے لیے جائز نہیں کہ وہ قاضی اور علماء کے بغیر کسی معین شخص کو کافر کرار دیں ۔

 

مسلمان وہ ہے جو نماز ادا کرے نماز میں قبلہ کی طرف رخ کرے اور مسلمانوں کا ذبیحہ کھائے جو کوئی بھی یہ سب کرے وہ مسلمان ہے کسی بھی صورت میں اس کی تکفیر جائز نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

(من صلى صلاتنا واستقبل قبلتنا وأكل ذبيحتنا فذلك المسلم الذي له ذمة الله وذمة رسوله، فلا تخفروا الله في ذمته)

ترجمہ : جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور ہماری طرح قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہمارے ذبیحہ کو کھایا تو وہ مسلمان ہے جس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی پناہ ہے۔ پس تم اللہ کے ساتھ اس کی دی ہوئی پناہ میں خیانت نہ کرو۔

 

یعنی اسلام کے حقوق ہیں اور مسلمان پر واجبات ہیں ان حقوق کی ادائیگی اور واجبات کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان کی تعریف کی جائے اور کسی بھی انسان کے لیے واضح کیا جائے کہ وہ اسلام کو کسیے قبول کرسکتا ہے اور اسلام میں داخل ہونے کے لیے نماز کی ادائیگی قبلہ کی طرف منہ کرنا اور مسلمانوں کا ذبیحہ کھانا یہ شعائر اسلام میں سے ہیں مسلمان کو ان اعمال کا کرنا اللہ اور اس کے رسول کی امان میں آنے کے لیے ضروری ہے اس امان می آنے کے بعد اس کا مال اور اس کا خون اس کے علاوہ سب پر حرام ہو جاتا ہے اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نع کیا ہے اور اس سے ڈرایا ہے کہ اس میں میں خیانت نہ کی جائے ۔

News Desk
News Deskhttps://educationnews.tv/
ایجوکیشن نیوز تعلیمی خبروں ، تعلیمی اداروں کی اپ ڈیٹس اور تحقیقاتی رپورٹس کی پہلی ویب سائٹ ہے ۔
متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں

مقبول ترین